728x90 AdSpace

Latest News

Ads 468x60px

19 August, 2013

مختصرسوانح حضرت پیر سید محمد راشد شاہ علیہ الرحمۃ

مختصرسوانح حضرت پیر سید محمد راشد شاہ علیہ الرحمۃ

                                        علامہ مفتی عبدالرحیم سکندری



آپ کانام:       
 سید محمد راشد شاہ اور لقب " روضی دھنی" ہے آپ بتاریخ ۶، رمضان سنہ ۱۱۷۰ھ میں تولد ہوئے۔ آپ بھی حضور غوث اعظم سید محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی قدسنا اللہ باسرارہ العزیز کی طرح ماہ رمضان میں دن کے وقت شیر مادر نہ پیتے تھے اسی وجہ سے آپ کا لقب " روزہ دھنی"  مشہور ہوا۔

آپ کی تعلیم:    

آپ نے ابتدائی تعلیم حافظ زین الدین مہیسر مرحوم اور مولانا محمد اکرم سے حاصل کی۔ مولانا موصوف بڑے  عالم و فاضل تھے۔ بعد میں ان کی دخترِ نیک  اختر کے ساتھ آپ کا نکاح منعقد ہوا۔ جس کے بطن سے آپ کے فرزند سید محمد صبغت اللہ شاہ اول (تجر دھنی) تولد ہوئے۔۔قرآان مجید اور فارسی کی ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد آپ کے والد بزرگوار نے آپ کو بمقام شکارپور، علامہ فقیر اللہ صاحب علوی کے مدرسہ میں داخل کرادیا۔ ایک مرتبہ آپ کے والد ماجد جب اس مدرسہ میں تشریف لائے تو یہ دیکھا کہ  آپ کو نفیس و عمدہ طعام کھانے کو ملتا ہے۔ فرمایا جہاں طلباء کو اس طرح کا عمدہ کھانا ملتا ہو وہاں حصولِ فیض مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔ آپ نے اسی وقت اپنے فرزند محمد راشد شاہ کو اس مدرسہ سے رخصت دلاکر، حضرت مخدوم یار محمد قدس سرہ کے ہاں بمقام کوٹڑی کبیر (ضلع نوشہرو فیروز) میں داخل درس کیا۔ جہاں پر طلباء کو فقر و قناعت کا سامنا رہتا تھا۔ بعض اوقات فاقوں کی نوبت بھی آجاتی تھی۔

        اس کے علاوہ آپ نے کچھ عرصہ مخدوم احمدی صاحب بن مخدوم عبدالرحمان سے قصبہ کھڑا (گمبٹ کے قریب) میں بھی تعلیم حاصل کی۔ سب سے آخر میں آپ نے اعلٰی تعلیم کے حصول کے لئے بمقام خیرمحمد آریجہ (ضلع لاڑکانہ) مخدوم مولانا محمد علیہ الرحمۃ کے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ اس طرح آپ نے اس مدرسہ میں ظاہری علوم کی تکمیل کرلی۔ آپ سفر کے مشقتیں برداشت کرنے اور مدرسوں میں پڑھنے سے گرانی واکتاہٹ محسوس کرنے لگے تھے۔ چنانچہ آپ ہی کا بیان ہے کہ ہم کوٹڑی کبیر کے مدرسہ میں حضرت مخدوم یار محمد کے پاس تعلیم ظاہری کے حصول میں مشغول تھے کہ ہم پر اب مسافری کی تکلیف بہت گراں اور مشکل محسوس ہونے لگی۔ تو ہم نے ایک رات ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر سرور کائنات فخر موجودات ﷺ کے حضور پانچ ہزار مرتبہ درود شریف پڑھ کر بکمال عجزو انکسارروکر امداد مانگی کہ یارسول اللھ ! مجھ کو اس سفر کی تکلیف سے بھی بچالیں اور دولت علم سے مالامال بھی فرمادیں۔ اس وقت سرکاردو عالم ﷺ کے فضل و کرم سے مجھے وہ تمام علوم حاصل ہوگئے جو میں نے پڑھے نہ تھے۔

بیعت طریقت:   

آپ نے والد ماجد حضرت سید محمد بقاء علیہ الرحمۃ کے دست حق پرست پر بیعت کیا ور انہی کی رہنمائی میں منازل سلوک طئے کیں۔ آپ کا بیان ہے کہ " جب میں اور میرا بھائی میاں مرتضیٰ علی شاہ کوٹڑی کبیر میں مخدوم یارمحمد کے مدرسہ میں علمِ ظاہری کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ ایک دن ہمارے والد ماجد ہمارے پاس تشریف لائے۔ فرمایا" کیا تُم جانتے ہو کہ ہم اس وقت تمہارے پاس کس لئے آئے ہیں؟ہم نے عرض کی، یا حضرت!  اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا، آج میں مخدوم میاں عبدلرحمان سے جو مخدوم محمد اسماعیل کے مُریدوں میں سے ہیں۔ ملاقات کے لئے ان کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آیا آپ کو حضرت مخدوم محمد اسماعیل علیہ الرحمۃ سے بیعت و تلقین کرنے کی اجازت حاصل ہے؟ میں نے کہا ہاں ہم کو اسکی اجازت حاصل ہے۔ اس پر انہوں نے مجھ سے اپنی اہلیہ کو بیعت کرنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اسکو اجازت دے دی۔ اس کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ آیا آپ نے اپنے فرزندوں کو بھی اپنے سلسلہ طریقت میں داخل کیا ہے یا نہیں؟ میں نے کہا ابھی انھیں اس جانب کچھ توجہ نہیں ہے۔ وہ کہنے لگے" چاہے ان کو اس جانب توجہ نہ بھی ہو۔آپ انہیں طریقت کا سبق ضرور دیں۔یھی وجہ ہے میں تمہارے پاس آیا ہوں یہ فرماکرآپ نے ہم دونوں بھائیوں کو سلسلۂ نقشبندیہ میں داخل فرمالیا۔ہم دونوں بھائی آپ کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کرتے  رہے۔ لیکن مجھ پر کچھ بھی اثر ظاہر نہ ہوا۔ جبکہ میرے بھائی مرتضیٰ علی شاہ پر خاطر خواہ اثرات نمایاں ہوگئے تھے۔ ہمارے والد صاحب جب دوبارہ ہمارے پاس تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے اشغال و حال کی کیفیت دریافت کی۔ میں نے عرض کی۔ اشغال میں مشغول رہنے کے باوجود مجھے تو کچھ کیفیت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ سُن کر آپ نے مجھے طریقہ عالیہ قادریہ کے تحت ذکر بالجہر میں مشغول ہونے کا حکم فرمایا۔ اورسلسلہ قادریہ میں داخل فرمایا۔ ذکربالجہرنے مجھ پر اس قدر اثر کیا کہ ازسرتاپاء۔ مو بہ مو۔ ناخن تک ذاکر بن گئے۔ تمام اعضاء بدن محبت الٰہی میں سر شار اور فائز المرام ہوگئے۔             (ملفوظات روزہ دھنی)

سجادہ نشینی:      

سید محمد راشد شاہ عرف روزہ دھنی علیہ الرحمۃ اپنے والد ماجد و مرشد مکرم سید محمد بقاء شاہ علیہ الرحمۃ کی شہادت کے بعد بتاریخ ۱۰ محرم سنہ ۱۱۹۸ ہجری سجادہ نشین بنے۔ اس وقت کی عمر اٹھائیس 28 برس تھی۔ تینوں بھائی والد ماجد شھید کی وصیت کے مطابق آپ  کے تابعدار بن کررہے۔ آپ بھائیوں کو اعزاز و اکرام سے نوازتے رہے اس طرح چاروں بھائی محبت و اتفاق کے ساتھ دین اسلام کی سربلندی کی خدمات سرانجام دیتے رہے آپ نے خداداد فیوض و برکات سے خلقِ خدا کو بہت نوازا۔ لاکھوں مریدوں کی اصلاح فرمائی ۔ آپ  دوردراز کے رہنے والے مریدوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بذاتِ خود سفر کرکے ان کے پاس پہنچتےتھے۔ اس سلسلہ میں آپ سندھ، پنجاب، بلوچستان، کچھ، راجستان، افغانستان اور ایران تک دورہ فرمایا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ جب آپ ضلع ڈیرہ غازی خان میں تشریف فرماتھے۔ آپ کے دادا مُرشد کے فرزند ارجمند و سجادہ نشین حضرت پیر سید محمد گیلانی علیہ الرحمۃ بھی ضلع میانوالی سے سفر کرتے ہوئے وہیں آ پہنچے۔ اس سے قبل اگرچہ ان دونوں بزرگوں نے ایک دوسرے کو نہ دیکھا تھا۔ تاہم جب یہ دونوں ملاقی ہوئے تو روحانی کشش و معرفت سے ایک دوسرے کو پہچان گئے ۔ حضرت پیر سائیں روزہ دھنی مریدوں کی حثییت سے بکمال تعظیم و تکریم آداب بجالائے۔ اورجو کچھ بصورت نقد و جنس آپ کے پاس موجود تھا سید محمد گیلانی کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کردیا۔ انہوں نے بھی آپ سے بیحد شفقت و محبت کا برتاؤ کیا۔ اس طرح یہ دونوں حضرات کچھ عرصہ اکھٹے رہے ۔ میاں محمد بقاء شاہ شہید کی پیر کوٹ سے روانگی کے بعد دونوں خاندانوں کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ (گلزار قادری ص۹۲)

        حضرت پیر سید محمد راشد شاہ علیہ الرحمۃ ہردم عشق رسولِ اکرمﷺ میں سرشار رہتے تھے۔ ہر سال ماہِ ربیع الاول میں میلادالنبی ﷺ کی تقریب بڑی شان و شوکت کے ساتھ مناتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے "ہماری خوشیوں میں سب سے بڑی خوشی میلادالنبیﷺ کی خوشی ہے ۔ آپ اس خوشی کے اظہار کے لئے بہترین ڀ طعام پکواتے۔ اپنے دولت کدہ پر فقراء کو دعوت عام دیکر ان کی ضیافت فرماتے۔ آنے  والے ہر خاص و عام کو مرحبا اور خوش آمدید فرماتے۔ بذاتِ خود سب کے ہاتھ دُھلواتے حاضرین پر اپنے ہاتھوں سے عطرو گلاب کا چھڑکاؤ کرتے۔ شاداں و فرحاں بڑی فراخدلی کے ساتھ کھانا کھلا کر بھی ان کے ہاتھ خود دُھلواتے ان کو رخصت کرتے وقت انکساری کے ساتھ شریک دعوت ہونے پر ان کا شکریہ ادا کرتے۔ بار بار مرحبا خوش آمدید کہتے جاتے تھے۔    (ملفوظات روزہ دھنی ص ۳۵۲ ج۴)

        یہاں پر  ایک امر کی وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ آج کل کے کچھ ابن الوقت وہابی جو عقائدِ اہلسنت و جماعت کے مخالف سرکارِ دو عالم ﷺ اور الیاء کرام کی شان میں دریدہ دہن و گستاخ ہیں۔ میلادالنبی ﷺ کی خوشی میں مجالس میلاد منعقد کرنے اور خوشی کے اہتمام کو حرام و شرک قرار دیتے ہیں جن کی زندگیاں امت مسلمہ میں انتشار برپا کرنے، فتہ پھیلانے اور ملک و ملت سے  غداری میں صرف ہوتی رہی ہیں جو انگریزوں کی حکومت کے وفادار، جاں نثار اور نمک خوار رہے۔ پھر ہندو کانگریسی لیڈروں کے تنخواہ دار ملازم بن کر تحریک پاکستان کے کٹر مخالف رہے ہیں اب بدلے ہوئے حالات کے تحت خود کو اہلسنت و جماعت کہلانے اور اپنے پیشواؤں کو اہلسنت و جماعت کے رہنما ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے نہیں شرماتے۔ یہ لوگ اپنے پیشواؤں، سید احمد بریلوی اور مولوی محمد اسماعیل دہلوی اور ان کے ساتھی لُٹیروں کو مجاہدین آزادی و مجاہدین اسلام ثابت کرنے کی خاطر عالی مرتبت پیران پاگارا سے ان کا تعلق جوڑنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ ڈہنڈورہ پیٹتے ہیں کہ سید احمد اور اسماعیل دہلوی اپنی جماعت کے ہمراہ " پیرجوگوٹھ " آئے تھے تو قبلہ پیر سید صبغت اللھ شاہ اول علیہ الرحمۃ نے ان کا بڑا  اعزازو اکرام کیا تھا ان کی مہمان نوازی کی تھی نیز ان کی رہنمائی قبول کر کے ان کے (نام نہاد) جہاد سے متفق ہوکر اپنے پانچ سو (۵۰۰) جانباز مریدوں کی ماتحتی میں دے دیئے تھے۔

وضاحت: میں پورے وثوق کے ساتھ اعلان کرتاہوں کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ پیرانِ پاگارا پر الزام تراشی ہے۔ وہابیہ کی اس من گھڑٹ کہانی میں اگر کچھ بھی صداقت ہوتی تو خاندانِ عالیہ راشدیہ کے تحریری ریکارڈ میں کچھ تو ذکر موجود ہوتا۔حالانکہ خاندان عالیہ راشدیہ کے کسی مکتوب یا ملفوظ میں ان کی اس کہانی کے بارے میں ایک حرف تک موجود نہیں ہے۔ نیز لطف کی بات دیکھئے کہ پاکستان قائم ہونے سے پہلے خود وہابیہ نے سید احمد رائے برہلوی اور اسماعیل دہلوی کے بارے میں اپنی کسی تالیف یا تصنیف میں اس کہانی کا کہیں ذکر تک نہیں کیا  تھا۔ بلکہ قیام پاکستان کے بعد پہلے غلام رسول مہر نے یہ افسانہ تراشا اور پھر سب وہابی اس افسانے پر مزید اضافے کرتے چلے گئے ان کا یہ طرز عمل ان امرکی دلیل ہے کہ یہ لوگ اب اپنی ملک و ملت سے غداریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں غلط بیانیوں کا سہارا لے رہے ہیں اور تاریخ کو مسخ کرکے اپنی پیشانی پر لگے ہوئے کلنک کے ٹیکے کو مٹانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں اس کھلی وضاحت کے بعد امید کرتا ہوں کہ برادران اہلسنت و جماعت وہابیہ کے فریب میں نہیں آئیں گے۔ ان کے تاریخی سیاہ کردارسے مفصل واقفیت کے لئے ضروری ہے کہ فاضل محقق و مؤرخ ابوالحسان قادری کی تالیف مکمل تاریخ وہابیہ“ اور” تبصرہ برتذ کرہ پیرانِ پاگارا“ کا مطالعہ کیا جائے اور ان کی مذہبی فریب کاریوں سے مطلع ہونے کے لئے مولانا سید نعیم الدین صاحب مراد آبادی کی تالیف ”اطیب البیان“ اور ابوالحسان قادری کی تالیف ” تنویر الایمان حصہ اول دوم “ کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔

پیر سائیں روزہ دھنی قدس سرہ کی وفات

آپ نے بتاریخ اول شعبان ۱۲۳۳ ہجری اس دارفانی سے رحلت فرمائی۔

انا للھ و انا الیہ راجعون

آپ کا جسدِ خاکی پرانی درگاہ میں دفن کیا گیا تھا لیکن بعد میں سیلاب کے خطرے کے پیش نظرآپ کے پوتے سید علی گوہرشاہ علیہ الرحمۃ نے ۶ جمادی الاول۱۲۵۰ھ مطابق اکتوبر ۱۸۳۴ ء میں آپ کا تابوت منتقل کر کے نئی درگاہ میں دفن کیا۔ آپ کے صاحبزادوں کی تعداد اٹھارہ ۱۸ ہے جنکے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔

۱۔حضرت سید صبغت اللہ شاہ اول

۲۔ سید محمد حسن شاہ

۳۔ سید ہدایت اللھ شاہ

۴۔سید محمد یٰسین شاہ

۵۔ سید محمد بقاء شاہ

۶۔ سید محی الدین شاہ

۷۔سید محمد کریم شاہ

۸۔ سید مہدی شاہ

۹۔ سید حُسین شاہ

۱۰۔سید شاہنواز شاہ

۱۱۔ سید مبارک شاہ

۱۲۔سید اسماعیل شاہ

۱۳۔سید حامد شاہ

۱۴۔ سید صادق شاہ

۱۵۔ سید شاہنواز شاہ

۱۶۔سید مبارک شاہ

۱۷۔ سید حامد شاہ

۱۸۔ سید اسماعیل شاہ علیہم الرحمۃ۔

آپ کی رحلت کے بعد آپ کے بڑے فرزند سید صبغت اللھ شاہ اول الملقب بہ پیر سائیں تجردھنی علیہ الرحمۃ سجادہ نشین بنے۔

خلفاء:  جس قدر آپ کے متوسلین اور مریدیں کا حلقہ وسیع تھا اسی قدر آپ کے خلفاء کی تعداد بھی کثیر ہے۔ جن کی تفصیل بڑی ملفوظات شریف میں مندرج ہے ۔ آپ کا ہر خلیفہ اپنے مقام پر آفتاب وماہتاب بن کر چمکا۔ ہر خلیفہ نے اپنے عالی مقام مرشد کامل کی روایات کو درخشندہ و تابندہ رکھا۔ اور آپ کے خلفاء سے بھی مخلوق کی بڑی تعداد مستفید و فیضیاب ہوئی طوالت سے بچنے کی خاطر اس مختصر مضمون میں تبرکا صرف چار خلفاء کا ذکر کیا جاتا ہے۔

۱۔      خلیفہ سید حسن شاہ جیلانی علیہ الرحمۃ۔

سلسلہ سوئی شریف کے بانی ہیں ۔ ان کے خلیفۂ مجاز حضرت حافظ محمد صدیق علیہ الرحمۃ بانی بھرچونڈی شریف، بڑے پائے کے بزرگ ہوئے ان کے حلقہ مریدین کا حلقہ بھی بڑا وسیع ہے۔ مولوی تاج محمود امروٹی، مولوی احمد علی شیرانوالہ گیٹ لاہور، مولوی عبید اللھ سندھی اور مولوی حماد اللھ ہالیجوی بھی انہی کے مرید تھے۔ لیکن مسلک دیوبند سے منسلک ہوکر اپنے مشائخ اور سلسلہء خاندان عالیہ راشدیہ کے مسلک اہلسنت و جماعت سے منحرف ہوگئے اور مسلکِ دیوبندیہ کی جمعیت علماءِ ہند میں شامل ہوکر گاندھی کی آندھی کے سامنے خَس و خاشاک کی مانند اُڑتے بھٹکتے پھرے۔ فاعتبر و ایا اولی الا بصار

۲۔خلیفہ سید جان محمد شاہ بخاری علیہ الرحمۃ۔

چھرائے والے آپ بڑے صاحب کمال مشہور ولی اللھ تھے۔ آپ کے فیض سے دور دراز تک بہت سے علاقے فیضیاب ہوئے۔ ان کی اولاد سے سید حاجی یار محمد صاحب اور اس کے دونوں صاحبزادے سید جان محمد شہید اور سید حاجی عبدالخالق شاہ بہی صاحب کمال بزرگ ہوئے۔ اس خاندان کےمریدوں کی کثرت علاقہ کیچ مکران میں ہے۔

        میر دوست محمد اور میردین خان بھی انہی کے مُرید تھے۔ علیہم الرحمۃ ان کے علاوہ شہدادپورکے حاجی دُرمحمد شاہ اورحاجی قادن شاہ جیسے مشہور اولیاء اللھ بھی انہی کے مُرید تھے۔ علیہم الرحمۃ

۳۔     خلیفہ محمود نظامانی علیہ الرحمۃ۔

کڑیہ گھنور والے۔ ان کے مریدین کی اکثریت، علاقہ کچھ ، کاٹھیاواڑ اور بمبئی میں ہے۔ آپ مسائل تصوف میں کامل دسترس رکھتے تھے۔ آپ کی تصنیف محبوبیہ المحمودیہ مسائل تصوف میں معرکۃ الآراء کتاب ہے۔ آپ ہی ملفوظٓات پیر سائیں روزہ دھنی علیہ الرحمۃ کے جامع ومؤلف ہیں آپ کے جمع کردہ ملفوظات جو بزبان فارسی تھے۔ سندھی میں ترجمہ کرکے جمعیت علماء سکندریہ نے شائع کیے ہیں۔

۴۔     خلیفہ نبی بخش لغاری علیہ الرحمۃ۔

اپنے دور کے نامی گرامی ولی اللھ ہوئے۔ ان کے مریدین کی بڑی تعداد علاقہ کَچھ، کاٹھیاواڑ اور دھوراجی میں آباد ہے، آپ سندھی اور سرائیکی ہر دو زبانوں کے قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ کی سرائیکی زبان میں منظوم کتاب " سسی پنہوں" بڑی مقبول و مشہور ہے۔

        ان کے پوتے غلام نبی نے اُس دوران جبکہ سید حزب اللھ شاہ الملقب بہ تخت دھنی علیہ الرحمتہ  سجادہ نشین تھے۔ خاندان راشدیہ کے مریدوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ صرف سجادہ نشین پیر صاحب پاگارا کے جاں نثار فدائی بن کر رہیں صرف اسی کے احکام کی تعمیل کو لازم جانیں اور صرف اسی کو نذرو نیاز پیش کیا کریں۔ اس کے علاوہ سجادہ نشین کے بھائیوں اور رشتہ داروں کی تعظیم تو ضرور کریں کسی بھی معاملے میں ان کو سجادہ نشین پیر صاحب پاگارا کے مساوی نہ جانیں۔ جبکہ خدا  ایک ، رسول ایک، قرآن ایک ہے تو مرشد بھی ایک ہی ہے۔ پس جن افراد نے خلیفہ غلام نبی کی اس بات پر عمل کرنا شروع کردیا وی خود کو "حُر" کہلانے لگے کہ جس طرح میدانِ کربلا میں حضرت حُر نے حضرت امام حُسین  پر اپنی جان قربان کردی تھی۔ اسی طرح ہم بھی پیر صاحب پپاگارا پر جا قربان کردینے والے فدائی ہیں۔ اس سے قبل خاندان راشدیہ کے مُرید حُر نہیں کہلاتے تھے۔ پس یہ گروہ جس نے سجادہ نشین پیر صاحب پاگارا اور اس کے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کے درمیان معاملات میں فرق رکھنے کو اختیار کیا۔ اس کو فرقی، کہا جانے لگا۔ اور جن افراد نے غلام نبی کی اس بات پر عمل نہ کیا بلکہ حسب سابق سجادہ نشین پیرصاحب پاگارا اور اس کے بھائیوں اور رشتہ داروں سب کی وفاداری اور خدمت گذاری کو لازم سمجھتے رہے وہ "سالم" کہلائے، تاہم جب انہوں نے دیکھا کہ "فرقی" خود کو حُر کہلا کر اس پر فخر کرتے ہیں تو گروہ "سالم" کے افراد نے یہ کہہ کر کہ ہم بھی پیر صاحب پاگارا کے جاں نثاو فدائی ہونے کے لحاظ سے "فرقیوں" سے کم  نہیں ہیں۔ خود کو حُر کہلانا شروع کردیا۔

        موجودہ ابن الوقت وہابی یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ "جب سید صبغت اللھ شاہ اول پیرصاحب پاگارا نے سید احمد رائے بریلوی اور محمد اسماعیل دہلوی کے (نام نہاد) جہاد سے متفق ہوکر اپنے پانچ سو مرید ان کی تحویل میں دے دئے تھے۔ تو سید احمد نے خوش ہوکر انہیں "حُر " کے خطاب سے نوازا تھا۔ حالانکہ سید حزب اللھ شاہ پیرصاحب پاگارا کے دور سے قبل خاندان راشدیہ کے مریدین کو "حُر" کہنے یا کہلانے کا سراغ تک نہیں ملتا۔ پس وہابیہ کا یہ دعویٰ بھی سراسر غلط خلاف واقعہ اور نِری بکواس ہے۔ فقیریہ وضاحت اس لئے کرتا ہے کہ عوام و خواص پر وہابیہ کا مکرو فریب واضح ہو۔ اور بھولے بھالے سنی بھائی ان کے جھوٹے پروپیگنڈا سے گمراہ نہ ہوں۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: مختصرسوانح حضرت پیر سید محمد راشد شاہ علیہ الرحمۃ Description: Rating: 5 Reviewed By: سکندری
Scroll to Top