728x90 AdSpace

Latest News

Ads 468x60px

19 August, 2013

اپنا زمانا آپ بناتي هين اهل دل (اردو)

اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل،
       ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا۔ (جگر)
                                پیر سید محمد فاروق القادری
               
   
        اس بات کا غیروں کو بھی اعتراف ہے کہ ہر چند مسلمانوں کا سیاسی زوال بارہا ہوا تاہم اس انحطاط اور زوال کے دور میں بھی اسلام تبلیغی اعتبار سے شاندار کامیابی اور ترقی حاصل کرتا رہا ۔مشہور مستشرق "ایچ  آر اے گب" نےایک دفعہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تقریرکرتے ہوئے کہا تھا کہ "تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا لیکن بایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہوسکا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تصوف یا صوفیا کا انداز فکر فورا اس کی مدد وکو آجاتا تھا اور اس کو اتنی توانائی اور قوت بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی" (بحوالہ تاریخ مشائخ چشت)
برصیغر پاک وہند کی تاریخ پر نظر رکھنے والے لوگ بخوبی آگاہ ہیں کہ مغل حکومت اپنے انتہائی مضبوط اور سنہرے دور میں پٹڑی سے اترنے لگی تو قدرت نے اپنی فیاضی سے حضرت مجددالف ثانی کو اس کے سامنے شیر سکندری بنا کر کھڑا کردیا مغل حکومت عیش و عشرت اور ناؤ نوش میں غرق ہو کر ہچکیاں لینے لگی تو دین کی حفاظت اور اس میں تازہ روح پھونکنے کے لئے اللھ تعالٰی نے حکیم الامت شاہ ولی اللھ محدث دہلوی جیسی جامع الصفات شخصیت پیدا کردی۔
        یہ ایک امر ہے کہ اسلام کو اللھ تعالٰی نے ایک ایسے خودکار نظام سے آراستہ کیا ہے جو اپنے نام لیواؤں  کی کوتاہیوں، خامیوں اور غلطیوں کی بروقت اصلاح کرتا رہتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ سقوط بغداد کا المناک دھچکا ہو یا خلافت عثمانیہ کا ایفا،برصیغر سے مغلیہ حکومت کا خاتمہ ہو یا انگریز کا غاصبانہ تسلط یہ سب اسلام کی تبلیغی، اصلاحی اور تعمیری مشن کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے بلکہ اسلام اپنی صدری قوت کے ذریعے برابر پھیلتا پھولتا اور پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ہے۔
        انگریز نے جونہی سرزمین ہند پر اپنے قدم رکھے اس زمین کا حساس سینہ کرب سے چیخ اٹھا انگریز کو اس سر زمین سے نکالنے کے لئے جہاں قدرت نے پہاڑوں سے بڑے حوصلے اور فولاد سے زیادہ سخت جان مجاہدین کی کھیپ تھوک کے حساب سے پیدا کردی، ٹھیک وہاں اسلامی کلچر اور اس کے روح کو بچانے کے لئے اور معاشرے میں بدستور اسے جاری و ساری رکھنے کی خاطر اس نے ہزاروں کی تعداد میں ایسے درویش خدا مست میدان میں لاکھڑے کئے جن کے انفاس کی خوشبو، سیرت وکردار کی تابندگی، زبان کی حلاوت اور خدمت خلق کے جذبے نے اسلام کو حرارت اور تابندگی بخش دی، انہی لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمتہ نے فرمایا۔
ہم حراس القلوب، جواسیس الارواح،الامناء علی السرائر الخ
"وہ دلوں کے نگران، روحوں کے شناسا بھیدوں کے امین، سینے میں چھپی ہوئی باتوں اوردلوں کی تہہ میں موجود نیتوں سے باخبر ہیں"
        اٹھارویں صدی کے اواخر میں اور انیسویں صدی کے ابتدائی دور کا ہندوستان سیاسی اور سماجی اعتبار سے انتہائی پر آشوب حالات کا شکار تھا، انگریز وارد ہو چکا تھا اور اپنے قدم جمانے کے لئے مختلف سازشوں، سیاسی رشوتوں اور داروگیر کے ہتھکنڈوں کو پوری ہوشیاری کے ساتھ استعمال کررہا تھا مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت ختم ہو کر رہ گئی تھی۔
        تصوف کے مراکز عام طور پر رسوم و رواج، غیر ضروری چلوں، مکاشفوں اور تعویذ گنڈوں اور قوالی کی محفلوں تک محدود ہوکر رہ گئے تھے ، وراثت میں ملنے والی مسندوں کے بیشتر وارث لوگوں کو اللھ تعالٰی کے سامنے جھکانے کے بجائے ان کی دلوں میں صرف اپنی عقیدت و محبت کے شربت انڈیل رہے تھے، خانقاہی ماحول میں کتاب و سنت اور سیرت رسول کے بجائے اپنے اپنے بزرگوں کے معمولات و مشاغل کو محبت اور دلیل بنانے کا رجحان فروغ پارہا تھا۔
        بعض مشائخ نے ہندوستان کے خاص حالات کی بنا پر بڑے فائدے یعنی تبلیغ اسلام کی خاطر نسبتا بعض غیر ادنی امور انتہائی حکیمانہ انداز میں اختیار کئے تھے اور ان کی وجہ سے انہوں نے حیرت انگیز نتائج بھی حاصل کئے تھے مگر ان کے  بعض منتسبین نے سارا زور انہی امور کی تقلید پر صرف کردیا جو وقتی طور پر اور انتہائی مصلحت کی خاطر اختیار کئے گئے تھے۔
        کون جاتنا تھا کہ ان مایوس کن اور پر آشوب حالات میں قدرت اپنی نیرنگیوں کا تماشا دکھانے کے لئے سرزمین سندھ سے ایک ایسی شخصیت اٹھائے گی جو حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کی نگاہ "سحرطراز" شیخ الاسلام فرید الدین گنج شکر کے زہدوتقویٰ سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے انداز دلبر ہائی مجددالف ثانی کے نکلنے اور مفکر اسلام شاہ ولی اللہ کے علم وفضل اور مرجعیت کی یادتازہ کردےگی۔
        چنانچہ قدرت نے اپنے ازلی قانون کے مطابق کمال مہربانی سے شاہ ولی اللھ کے انتقال ۱۱۷۶ھ سے پانچ سال قبل ان کے نعم البدل نعم الخلف نعم السلف کے طور پر شیخ کبیر مجددقادریت امام الاحرارمنبع رشدو ہدایت بطل جلیل سید محمد راشد کو ۱۱۷۱ ھ میں ایسی باد بہار کی شکل میں پیدا فرمایا جس نے برصیغر کے اطراف و اکناف کو ایمان و ایقان کے روح پر ور جھونکوں سے معطر کردیا، مشہور محقق اور عالم مولانا سید ابوالحسن مجددی نے کہا ہے کہ
"میں نے مولانا عبیداللھ سندھی سے خودسنا ہے کہ وہ (حضرت سید محمد راشد)اس دنیا میں علمی اور روحانی طور پر تقریبا وہی مرتبہ اور شہرت رکھتے تھے جو ان کے معاصر حضرت شاہ ولی اللھ دہلوی کا شمال مغرب ہندستان میں تھا" (پرانے چراغ جلد اول ۱۴۶)۔
        اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہ ولی اللھ ایک ایسا شجر طوبٰی ہیں جس کی شاخیں پورے عالم اسلام پر سایہ فگن ہیں تاہم حضرت سید محمد راشد علیہ الرحمۃ سے قدرت نے اصلاح و تبلیغ کا عظیم الشان کام لیا ہے اور جس انداز میں عددی اعتبار سے برصیغر کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے مبارک ہاتھوں اصلاح اخلاق اعمال حسنہ اور ایمان کی دولت سے بھرہ ور ہوئی ہے اس سے آپ کے کام کی نوعیت بڑھ جاتی ہے۔ نیز حضرت سید محمد راشد اس اعزاز میں بھی منفرد ہیں کہ ان کی نسل میں مسلسل کئی پشتوں سے علم فضل،تقویٰ وطہارت اور خدمت خلق کی شاندار روایت برابر چلی آرہی ہے یہ ایک ایسا سلسلہ الزہب ہے کہ جس کے تمام افراد مسند درس پر مدرس، سجادہ طریقت پر شیخ شب دار، محراب و منبر پر مفتی و مصلح اور میدان جہاد میں غازی و شہید ہوئے ہیں۔
لیس من اللہ بمستنکر ان یجمع العالم فی واحد
        اعلٰی حضرت سید محمد راشد روایتی مرشدنہ تھے بلکہ اسلام کے وہ گوہریک دانہ تھے جو یک طرفہ تزکیہ واحسان کی اعلٰی صفات سے بہرہ ور تھے تو دوسری طرف اسلام  کے جذبہ جہاد اور پیغام حریت کا پیکر مجسم تھے۔ آپ اسلام کی معذرت خواہانہ تعبیر کے نہیں بلکہ شان و شوکت اور باطل کے خلاف نبردآزما ہونے کے نظریہ کے علمبردار تھے گویا آپ نظیری کے اس شعر کی تصویر تھے۔
گریزدازصف ماہرکہ مردغوغانیست
کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلئہ مانیست
معروف محقق اور دانشور میر حسان الحیدری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔
"تاریخ شاہد ہے کہ اپنی زرخیزی شادابی اور ہنروری کے لحاظ سے برصغیر پاک  و ہند کا  چپہ چپہ دنیا میں سونے کی چڑیا کے نام سے مشہور تھا جس کی بنا پر مغربی توسیع پسندوں کی حریصانہ نظر اس علاقے پر مدتوں سے لگی ہوئی تھی ڈچوں پرتگالیوں اور فرانسیسیوں کے بعد سیاہ دل گوروں نے برصیغر پاک و ہند تاجروں اور حکیموں کے بھیس میں اپنے استعاری پنجے گاڑنے کی نیت سے ادھر کا رخ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک خونخوار عقاب اور باز کی طرح اس نے سونے کی چڑیا کو اپنے مضبوط پنجوں میں دبوچ لیا جو ۱۸۵۷ع سے ۱۹۴۷ع تک فرنگی باز کے طاقتور پنجوں میں پھڑ پھڑاتی رہی اور بالآخربڑی جدوجہد کے بعد اسے رہائی اور آزادی نصیب ہوئی تو وہ نیم جان ہی نہیں بلکہ بے جان ہوچکی تھی۔ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار محض نام کے حکمران بن کر رہ گئے تھے اور بقول علامہ اقبال، صادق ازبنگال و جعفر از دکن
اس قسم کے غداران ملت چند ٹکوں اور عارضی عہدوں کی لالچ میں اپنی ملت کی تباہی کا سبب بنے ہوئے تھے ایسے احوال و آثار میں سندھ کی مردم خیز سر زمین نے ایک بطل جلیل اور رجل کبیر کو جنم دیا جس کی عقابی نگاہوں نے تمام تاریخ کو اپنے جذبہءِدردِ دل میں سمیٹ کر اپنے سلسلہ طریقت اور نظام خانقاہی کو اس انداز سے مرتب اور استوار کیا کہ اس کی  روحانی درسگاہ محبت، معرفت اور نگاہ کا مظہر اور مرکز بن گئی اور اس کے حلقہ بگوش بلالی اذان کے نقیب ہی نہیں تھے بلکہ عشق خیبر شکن کے وارث بھی تھے وہ محض شب تن دارہی نہیں تھے بلکہ معرکہ کربلا میں صبر حُسین کے علمبرار بھی تھے میری مراد اعلٰی حضرت شیخ الکبیر منبع رشد و ہدایت سید محمد راشد صاحب الروضہ پیرپاگارا کی ذات بابرکات ہے جن کی نظیر پچھلی کئی صدیوں میں ملنا مشکل ہے بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے۔ (پیش لفظ میلاد محفلیں) جاہل پیروں اور صوفیوں کی بدعات و منکرات کے برعکس آپ نے احیائے سنت و شریعت اور اقامت  سنت کی تحریک اٹھائی تو لوگ دیوانہ وار اس کی طرف لپکے جس طرح ریگستان میں میٹھے پانی کے چشمے پر پکھی پرندے ٹوٹ پڑتے ہیں اس طرح پروانہ وار خلق خدا نے ہجوم کیا ہر شخص کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔
نہ من براں گل عارض غزل سرایم و بس
کہ عندلیبِ تواز ہر طرف ہزارا نند
        عشق الٰہی کی سچائی قلب کی پاکیزگی علم پر حاکمیت اور اخلاص و ایثار نے آپ کی دعوت و تذکیر میں ایسی تاثیر پیدا کردی کہ تھوڑے سے عرصے میں ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں جانباز اور فروش حلقہ ارادت میں داخل ہوگئے۔
        آپ نے اتباع نبوی میں مسجد کو اپنے اصلاحی و تبلیغی پروگرام کا مرکز بنایا سفر ہو یا حضرقرآن مجید کی تفسیر و توضیح احادیث نبویہ کی تشریح اور مثنوی مولانا روم کا درس دیتے زبان کھولتے ہی لوگوں میں گریہ اور آہ و بکا شروع ہوجاتا۔ مجلس میں بمشکل کوئی ایسی آنکھ ہوتی جو اشکبار نہ ہو جو ایک دفعہ شرف صحبت اختیار کر لیتا اسے گھر بار اہل و عیال بھول جاتے تو بھی دل حضور شیخ میں اٹکا رہتا۔ مجلس ختم ہوتی تو عوام و خواص خوف خدا اور محبت الٰہی میں بہنے والے آنسوؤں سے گناہوں کے دفتر دھوکر اپنے آپ کو سبکبار محسوس کرتے۔
        تھوڑا ہی عرصہ گذرا کہ آپ کی شہرت سندھ سے نکل کر بلوچستان، افغانستان، جیلسمیر، گجرات، مارواڑ، بیکانیر اور جودہپور تک پھیل گئی اور ان علاقوں سے قافلوں کی شکل میں لوگ کشان کشان آنے لگے مال مویشی پالنے والے اور جنگلوں میں رہنے والے لوگ جو پوری طرح اسلام کے بنیادی احکام سے بھی واقف نہ تھے اس طرح توحید کے رنگ میں رنگنے لگے کہ اب ان کی جھونپڑیوں سے ذکر الٰہی کی آوازیں آنے لگیں۔ آپ نے محبت الٰہی کی لڑی میں لاکھوں افراد کو اس طرح منسلک کردیا کہ یہ لسانی، وطنی، گروہی رشتوں سے نکل کر اسلام کی جانباز اور سرفروش برادری بن گئی ان لوگوں نے فانی رشتوں کو ایمان و محبت کے رشتے پر قربان کردیا راہ معرفت کے اس سفر میں سب کچھ چھوڑ کر یہ ایک دوسرے کے رفیق بن گئے سچ ہے
رشتہ عشق از نسبت محکم تراست
        امام الاحرار سید محمد راشد نے اپنی جماعت میں اللھ تعالٰی کی محبت کا صورایسی ملکی نفخ کے ذریعے پھونکا کہ اس راہ میں جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی ان کے لئے سب سے آسان بات بن گئی اس پاکیزہ جماعت کی سرفروشی اور قربانی کے جو حالات واواقعات دیکھنے میں آئے ہیں انہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس زمین کے انسان نہیں بلکہ ملک اعلٰی کے فرشتے تھے جنہیں اللھ تعالٰی نے زمین کی طہارت کے لئے انسانوں کی شکل میں بھیج دیا تھا۔
        راہ حق میں اس جماعت کی استقامت للٰھیت اور قربانیوں کی داستانیں پڑھ کر وجد طاری ہوجاتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ سب کام چھوڑ کر انہی لوگوں کا ذکر پڑھا اور سنا جائے۔
مبیں حقیر گدایانِ عشق کیں قوم
شہانِ بے کمر و خسروانِ بے کلہ نند
        اگر کسی مصلح اور رہبر کو چشمِ ابرو کے اشارے پر قربان کرنے والے رفیق میسر آنا کمال اور خوبی ہے تو امام الاحرار السید محمد راشد کا خانوادہ انسانی تاریخ کے چند گنے ہوئے خانوادوں میں شامل ہے کوئی شک نہیں کہ یہ سارے کمالات اور خوبیاں ایک شخصیت کی نگاہِ ناز کرشمہ تھیں۔

یک چراغ است دریں خانہ کہ از پر توِ  آل
ہر   کجا مے  نگری   انجمنے    ساختہ   اند
معروف مورخ اور صحافی رحیم داد خان مولائی شیدائی اپنی کتاب تاریخ سکھر میں لکھتے ہیں
"صاحب الروضہ حضرت سید محمد راشد الرحمۃ کے فیض عام سے ضلع سکھر کے کونے کونے میں روحانیت و معرفت کے کئی چشمے پھوٹ پڑے اور یوں سکھر کا علاقہ ظاہری و باطنی علوم کا مرکز بن گیا۔ کنگری (رہائش گاہ سید محمد راشد) کے گلستان کی مہک نے سکھر کو زندہ جاوید بنادیا چنانچہ کنگری سے سوئی شریف اور سوئی سے بھرچونڈی شریف نے اپنا دامن بھرا، بھرچونڈی شریف سے امروٹ اور دین پور فیضیاب ہوئے" (تاریخ سکھر۳۴۵)
        آگے چل کر آپ کے فیض یافتگان میں ایک ایسی شخصیت ابھری جو صیحح معنٰی میں ابر بہار ثابت ہوئی اور اس نے رشد و ہدایت اور ایمان و ایقان کی بارش سے برصغیر اور افغانستان کے ایک بڑے خطے کو جل تھل کردیا، میری مراد جنیدوقت سید العارفین حافظ الملت حضرت حافظ محمد صدیق علیہ الرحمۃ بھرچونڈی شریف ہے۔ آپ نے ہی آخری دور میں رشد و ہدایت اور تلقین اور ارشاد کا ایک غلغلہ برپا کردیاجس نے قطب ربانی غوث صمدانی سید عبدالقادر جیلانی خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی اور شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا کی ہمہ گیر شخصیتوں کی یاد تازہ ہوگئی۔
        آپ کی نگاہ نے ذروں کو ہمدوش ثریا بنایا۔ آپ نے زندگی کے دو مختصر بیان فرمائے۔ اتباع سنت کا جذبہ پیدا کرنا اور انگریز کو برصیغر سے نکالنا۔ سچ کہا ہے میر حسان الحیدری نے
خاک سندھ از دم اوتا بندہ شہر
مردہ دلہا ازقم اوزندہ شہر۔
دراصل ایسا اعظم الرجال اور مجاہدین اسلام کا ظہور صاحب الروضہ حضرت سید محمد راشدکے انفاسِ مبارکہ کا فیضان تھااس مقبولیت اور محبوبیت کا راز کیا ہے کہ بخاری شریف میں ایک حدیث وارد ہوئی جس کے الفاظ یہ ہیں۔
اذا احب اللھ العبد قال لجبریل احب فلانافاحبہ فیحبہ جبریل ثم ینادی جبریل فی اھل السماء ان اللہ قداحب فلانا فاحبوہ ثم یضع لہ القبول فی الارض۔
یعنی جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل سے فرماتا ہے کہ میں فلاں بندے کو دوست رکھتا ہوں تم بھی اسے دوست رکھو پس جبرئیل بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے جبرئیل آسمان والوں میں اس کی منادی کرتا ہے پھر تمام آسمان والے بھی اسے چاہنے لگتے ہیں اور اپنا محبوب بنالیتے ہیں جب آسمان والے اسے اپنا محبوب بنالیتے ہیں تو زمین والوں کے دل بھی اس کی محبت کے لئے کھل جاتے ہیں۔
        امام الاحرار سید محمد راشد نے ایک ماہرنباض کی طرح اندازہ لگایا تھا کہ روایتی پیری مریدی اور وعظ و تلقین سے اصلاح ِاحوال ممکن نہیں ہے اس کے لئے تجدیدی اندازمیں کام کرنا ہوگا۔ غالباً علامہ اقبال نے آپ ہی کے بارے میں کھا تھا کہ
اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا
                اس کے احوال سے محرم نہیں پیرانِ طریق
چنانچہ آپ نے ان خطوط پر اصلاح کے کام کا آغاز کیا
        اپنے مریدین سے جہاد پر بیعت لینا یہ جہاد تمام قسم کی سماجی اخلاقی اور معاشرتی برائیوں نا انصافیوں ظلم اور زیادتی کے خلاف ہوگا  ّجہاد کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے)۔ یہ جہاد اللھ تعالٰی کی و حدانیت اور حاکمیت تسلیم کرلینے کے بعد دوسری قوتوں کے سامنے سر جھکانے کے خلاف بھی تھا۔
اللھ تعالٰی کے ارشاد
اتل ما  اوحی الیک من الکتاب واقمِ الصلوٰۃ ان الصلوٰۃ تنھیٰ عن الفحشاء والمنکر و لذکر اللھ اکبر۔ 
آپ تلاوت فرمائیں جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم رکھیں بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور برائی سے اور بے شک اللھ کا ذکر ہر ذکر سے بہت بڑا ہے۔
        کے مطابق بالترتیب آپ نے ان تین باتوں کو اپنے طریقے کی اساس قرار دیا۔
۱۔      تلاوت قرآن
۲۔      نماز باجماعت
۳۔     حلقہء ذکر
راقم کے نزدیک اعلٰی حضرت سید محمد راشد کی تحریک صدر اول کے اسلامی اصولوں کی طرف رجوع کی تحریک ہے چوں کہ برصغیر میں مخصوص حالات کی وجہ سے بعض مشائخ نے کچھ بیرونی چیزیں اختیار کی تھیں۔ سید محمد راشد نے تجدیدی انداز میں ان سب سے صرف نظر کر کے دور صحابہ کے طور طریقوں کو ابھارا یہ آپ کے روحانی تصوف کا اعجاز ہے کہ آپ نے اپنے لاکھوں مریدین کے دلوں میں تلاوت قرآن ، نماز اور ذکر میں وہ لذت، چاشنی، مٹھاس اور کشش پیدا کردی تھی کہ یہ لوگ تلاوت، نماز اور ذکر میں ڈوب جاتے ان کے دلوں کے مضراب بج اٹھتے وہ محبت الٰہی میں تن من بھول جاتے سوز و درد کی یہ کیفیت ہوتی کہ اللھ کا نام لیتے ہی ان کی روح و جد کرنے لگتی۔
        یہ نعمت آپ کو اپنے گرامی قدر والد امام العارفین سید محمد بقا شہید علیہ الرحمۃ سے ورثے میں ملی۔ اعلٰی حضرت سید محمد راشد کا بیان ہے کہ "حضرت میاں صاحب (امام العارفین سید محمد بقا شہید والد ماجد سید محمد راشد) مجھے اور میرے بھائیوں کو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہم تم لوگوں کو علم پڑھانے کے لئے جو انتہائی کوشش کررہے ہیں یہ اس لئے نہیں کہ علم کی وجہ سے مخلوق خدا میں تمہاری عزت بڑے یا تم لوگ قاضی اور عالم کہلاؤ بلکہ ہماری کوشش صرف یہ ہے کہ تم سنت نبوی سے واقفیت حاصل کرو اور تمہیں اس پر عمل کرنے کی استقامت حاصل ہو، منزل مقصود تک پہنچنے کا راستہ صرف اتباع نبوی میں مضمر ہے اور بس"(مجمع الفیوضات، ملفوظات صاحب الروضہ)
۲۔      ہر معاملے میں سنت نبوی پر عمل یہاں تک کہ شادی بیاہ اور موت فوت کی صورتوں میں بھی سختی سے سنت کے سادہ اصولوں کی پابندی۔
۳۔     رزق حلال
۴۔     تمباکو نوشی اور گانے راگ وغیرہ سے پرہیز۔
۵۔      پیری مریدی اللھ تعالٰی تک پہنچنے کا ذریعہ ہے نہ کہ مقصود بالذات اسمیں خادم و مخدوم نہیں بلکہ خدمت اور محبت کا طریقہ ہونا چاہیے۔
۶۔      طریقت اور شریعت ایک ہی چیز ہے شریعت ظاہر اور طریقت عمل میں حسن اور دلکشی کا نام ہے یعنی باطن کو رذائل سے پاک کرنا۔
۷۔     تبلیغ اور اصلاح اعمال و عقائد کی  خاطر مسلسل سفر، تاکہ دوردراز کے لوگ اللھ والوں کے طور طریقے قریب سے دیکھ کر ان سے شنا سا ہوں۔
پہلے ہم بیان کرتے آئے ہیں کہ آپ جہاد پر بیعت لیتے تھے اسے بے خبر یا جہالت کہئے کہ دسیسہ کاری اور پروپیگنڈا کہ جہاد کا لفظ سنتے ہی بعض لوگ بیزاری، جھنجھلاہٹ اور نفرت کا اظہار کرنے لگتے ہیں خدا جانے وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آج کے نام نہاد مصلح اور دنیا میں امن و فلاح کے دعویدار ہی دنیا کے سب سے بڑے قاتل رہزن اور غاصب ہیں۔ جنگ عظیم اول اور دوم انقلاب روس کے دوران تہذیب و شائستگی کے علمبرداروں کے ہاتھوں جو خونریز مظالم چشم خاک نے دیکھے ہیں اس پر اس کے آنسو آج تک خشک نہیں ہوئے وہ اس مذہب کو خونریزی کا طعنہ دیتے ہیں جس کا پیغمبر نبی رحمت بن کر آیا ہے جس کے ہاتھوں اتنے بڑے عالمی انقلاب کے دوران دونوں طرف سے چند سو آدمی کام آئے ہیں جو انتقام کے بجائے معافی سختی کی بجائے نرمی اور گالیوں کے بدلے دعائیں دیتا ہے جو ذاتی دشمنوں کو جاؤ تم سب آزاد ہوکی نوید سناتا ہے اور جو اللھ عفویحب العفو(اللھ معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے)
جھاد کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ ۔
استفراغ الوسع فی مقابلة العد و  ظاھرا  و باطنا
        ظاہری اور مخفی دشمن کے خلاف اپنی پوری کوشش اور طاقت صرف کر دینے کا نام جہاد ہے۔ کیا اندرونی و بیرونی دشمن صرف وہ غیر مذاہب کے لوگ ہیں جو کلمہ توحید سے بہرہ ور  نہیں مگر ان کے بارے میں تو کہہ دیا گیا ہے کہ۔ لا اکراہ فی الدین۔ دین کیں کوئی جبر نہیں۔
        کیا عبادت سے روگردانی، حقوق العباد کی پامالی، جھوٹ، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی، طاقت کا ستعمال، ریاکاری،جوا،منشیات ایسی سینکڑوں برائیاں انسانی معاشرے کی دشمن نہیں ہیں؟ کیا حسد، بخل، منافقت، غیبت، تکبر، بداخلاقی وغیرہ ایسی ہزاروں بیماریاں انسان کی دشمن نہیں ہیں ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ مستشرقین اور ان سے مرعوب سہل انگار دانشور جہاد کو صرف تلوار اٹھانے تک محدود کر لیتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ تلوار اٹھانا بھی جہاد کا حصہ ہے مگر اس وقت جب ایک سوسائٹی کو پاک کرنے کے لئے اس کے بغیر چارہ نہ ہو ۔

        امام الاحرارالسید محمد راشد کو اللھ تعالی نے یہ خصوصیت عطا کی تھی کہ آپ نے اپنی جماعت کو ہر قسم کی برائی کے خلاف جہاد کی تربیت دی آپ نے اخلاقی برائیوں کو اپنی نگاہ کی تاثیر اور وعظ و تلقین کے ذریعے درست کرنے کی کوششیں کی تو وقت آنے پر اپنی جماعت کو سر ہتھیلی پر رکھ کر نہ حیات جاوداں اندر ستیز ہست کے لئے بھی تیار کیا۔
        انگریز کے خلاف برصغیر میں جو تحریک چلی اس میں آپ کی جماعت نے اپنے خون سے جو تاریخ رقم کی وہ ہماری ملی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے اسی طرح ۶۵ع می جنگ میں اس جماعت کی بہادری شجاعت اور بے جگری کی داستانیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
       شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ شریعت دراصل بقائے  باہمی لوگوں کے اور قوموں کے درمیان عزت نفس اور پر امن زندگی گذار نے کا سادہ آسان اور خدائی راستہ ہے اور عبادات کا حصہ معاملات کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اور وہ بھی دراصل افراد کی تربیت ان میں گداز پیدا کرنے اور انہیں سوسائٹی کا اچھا فرد بنانے کا نصاب ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک غزوہ سے واپسی پر فرمایا تھا۔
                رجعنا من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر
       ہم چھوٹے جہاد سے بڑے  جہاد (جہاد بالنفس) کی طرف آئے ہیں، اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام، مشائخ اور صوفیا نے فرد کی ظاہری و باطنی اصلاح پر زیادہ زوردیا ہے اور اسے اجتماعی اور معاشرتی اصلاح کی کلید قرار دیاہے۔ اسلام نے خالی خولی تصورات اور نظریات نہیں بلکہ اخلاق عالیہ اور فضائل شریفہ کے عملی نمونے دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں۔
       بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت محمد راشد سے جن لوگوں نے بیعت کا شرف حاصل کیا ان میں سے ہر فرد سونے کی بھٹی سے نکلا ہوا خالص کندن تھا یہ لوگ جہاں جہاں گئے وہاں ایمان کی تازہ بہار آگئی۔ جنگلوں اور ویرانوں میں اللہ اللہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں تیرہ سو کے قریب افراد نے خلافت و اجازت کا اعزاز حاصل کرکے مخلوق خدا کی رشد و ہدایت کا منصب سنبھالا۔
       آپ کے مورث اعلٰی حضرت سید علی مکی ۵۲۰ھ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں مکہ معظمہ سے سندھ میں تشریف لائے تو سادات کے اس جلیل القدر خانوادے کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ بیسیوں پشتوں بلکہ آج تک اس میں عالم، عارف، شاعر، مجاہد ، غازی، شہید اور صاحبان نظر پیدا ہوتے رہے، امام الاحرارالسید محمد راشد کا مزارآج بھی لاکھوں لوگوں کے لئے مرجع عقیدت ہے اور زبان حال سے پکار رہا ہے۔
زیارت گاہ اہلِ عزت و ہمت  ہے لحد میری،
کہ  خاکِ  راہ  کو  میں نے   بتایا   رازِ الوندی۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: اپنا زمانا آپ بناتي هين اهل دل (اردو) Description: Rating: 5 Reviewed By: سکندری
Scroll to Top