728x90 AdSpace

Latest News

Ads 468x60px

19 August, 2013

سرزمين سنڌ پر ايڪ علمي اور روحاني بحر، حضرت روزه ڌني رهبر(اردو)


سرزمینِ سندھ پر، ایک علمی اور روحانی بحر،

حضرت روزہ دھنی رہبر.

                       از خطیب فقیر شاہ محمد سکندری قادری پتافی   

تاریخ کے وسیع دائروں پر نظر ڈالیں تو اس میں ہمیں طرح طرح کے مصلحین دکھائی دیتے ہیں شیریں مقال واعظین اور آتش بیان خطیب سامنے آتے ہیں بہت سے فلسفہ طراز ہر دور میں ملتے ہیں بادشاہوں اور حکمرانوں کے انبوہ  ہمیشہ موجود رہے ہیں جنہوں نے عظیم الشان سلطنتیں قائم کی .جنگجو فاتحین کی داستانیں ہم پڑھتے ہیں، جماعتیں بنانے اور تمدن میں مدوزبر پیدا کرنے والوں سے تعارف حاصل کرتے ہیں انقلابی طاقتیں نگاہوں میں آتی ہیں,جنہوں نے نقشه حيات کو بار بارزیرو زبرکیا ہے ،متنوع مذاہب کے نیو ڈالنے والے بکثرت سامنے آتے ہیں ،اخلاقی خوبیوں کے داعی بھی اس سٹیج پر جلوہ گر ہوتے رہے ہیں ،لیکن جب ہم اُن کی تعلیمات، اُن کے کارناموں اور انکے پیدا کردہ مجموعی نتائج کو دیکھتے ہیں تو کہیں خیروفلاح دکھائی دیتی ہے تو وہ بھی جزوی قسم ہے ،اس کے اثرات زندگی کے کسی ایک گوشے پر اُبھرتے ہیں، پھر معمولی خير کے ساتھ عظیم مفاسد ترکیب پائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

        تاریخ میں انبیاءکے ماسوا کوئی عنصرایسا دکھائی نہیں دیتا جو انسان کو مکمل طرح اندر سے بدل سکاہو، البتہ انسان کی رشد و ھدایت کے لئے انبیاء کے بعد اولیاء کرام کی ہستیاں ہیں گہرائی سے نظر ڈالنے کے بعد بخوبی پتہ چلتا ہے کہ اُن اولیاء کرام کی ہستیوں میں سے حضرت سراج السالکین، شمس العارفین سید محمد راشد روزہ دھنی بن سید محمد بقاء شاہ قدس سرہ العزیز بھی بہت ہی اعلٰی مقام پر فائز تھے سب سے پہلے آپ کی ظاہری تعلیم اور آپ کے ظاہری علم پر نظر دالتے ہیں، اُس کے بعد آپ کے روحانی اور عرفانی کمالات پر اجمالی نظر دالیں گے کہ آپ کا فیض کہاں کہاں  تک جاکر پہنچا اور اُس سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔

علمی اور روحانی گھرانہ

        آپ نے آنکھ ہی ایک ایسے گھرانے میں کھولی جو سراپا علم و شریعت رازدان حقیقت و معرفت کا محور و مرکز تھا اور ذکر و فکر، خوف خدا، مصطفٰے کا پیش خیمہ تھا اور محبت کا سایہ ہمیشہ سر پر سایہ فگن تھا، اب اس چیز سے تو بلکل انکار ہی نہیں کیا جا سکتا کہ آپ ایک عالم ربانی اور رازدان روحانی و عرفانی شخصیت تھے ۔

ظاہری علم کے لئے والد محترم کی توجہ

        ایک مرتبہ آپ نے اپنا واقعہ یوں بیان فرمایا کہ ہمارے والد محترم نے ہمیں ظاہری علم کے حاصل کرنے کے لئے شکارپور شہر میں حاجی فقیر اللھ علوی علیہ الرحمۃ کے مدرسے  میں بیٹھایا اس جگہ پر ہمیں سادات ہونے کی وجہ سے دو  وقت کا کھانا بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ ملتا تھا ۔ایک دن ہمارے والد محترم ہمیں ملنے کے خیال سے ہمارے پاس آئے تو  اس تعظیم و تکریم کا آپ کو علم ہوگیا ،تو اُس پر آپ نے فرمایا اے بابا جس مدرسہ میں اتنی عزت کے ساتھ روٹی سالن ملتا ہو تو وہاں علم حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لئے اس مدرسہ کو چھوڑو اور کسی مدرسہ میں چلنا چاہیے۔ اس کے بعد ہمارے والد محترم نے ہمیں اُدھر سے اُٹھایا اور ایک دوسرے مدرسہ میں آکر بیٹھایا، یعنی  کوٹڑی کبیر مخدوم یار محمد صاحب علیہ الرحمۃ کے مدرسہ میں۔

دوران تعلیم اپنے اُستاد محترم کی دُعا

        ایک مرتبہ کا ذکر ہے کے کوٹڑی کبیر کے مدرسہ مخدوم یار محمد علیہ الرحمۃ کے پاس پڑھتے تھے اور مدرسہ میں ایک نیم کا درخت ہوا کرتا تھا جس کے نیچے سب طلباء کرام اپنی چٹائیاں بچھا کر اپنے اُستاد سے درس لیا کرتے تھے، ایک مرتبہ مخدوم یار محمد علیہ الرحمۃ نے درس دیتے ہوئے فرمایا اے بابا محمد راشد نیم کے اس درخت پر ان  کم بخت کؤوں نے اپنا گھونسلہ بنایا ہے اور یہ سارا دن اوپر سے کچرا نیچے گراتے رہتے ہیں اور طالبوں کے کپڑے خراب کردیتے ہیں اس لئے اس گھونسلے کو ھٹادو۔حضرت پیر صاحب اُسی ہی وقت نیم کے درخت پر چڑہے تو کوؤں نے بھی زور شور سے اُن کے اوپر حملہ کردیا اور کائیں کائیں کرتے کاٹتے تنگ کرتے رہے لیکن پیر صاحب نے اُس تکلیف کی پرواہ کیے بغیر آخر کار گھونسلے کو اُکھاڑ کر ہی چھوڑا  جب آپ نیچے اُترے تو مخدوم صاحب کو بہت پیار آیا شفقت اور محبت بھرے ہاتھ پیر صاحب کے سر مبارک پر پھیرتے ہوئے یہ فرمایا،

        اے بابا محمد راشد جیسے آج یہ کوے آپ پر چکر کاٹتے رہے ہیں اللھ تعالٰی وہ دن بھی لے آئے گا جو اس سر زمین کے لوگ جوق در جوق آپ پر چکر کاٹتے رہیں گے اللھ تعالٰی آپ کو اپنے وقت کا ایک بہت بڑا جید عالم اور کامل صفت بزرگ بنائے گا.اس دُعا کا اثر دنیا نے دیکھا کہ یہ دُعا کیا رنگ لائی ظاہرا  تو  نیم کے درخت پر چڑھنے کا ایک بہانہ تھا لیکن اصل میں فرمانبردار اطاعت گزار فیض یافتہ ہستی کو دُعائوں سے نوازنا تھا .دوسرا یہ کہ وہ کامل استاد بھی آپ کا مستقبل اپنی نور انی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جو ایک کامل مؤمن اور ولی اللھ کی خاص صفت ہوا کرتی ہے۔

        جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظربنوراللھ“  آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مؤمن کی نگاہ فراست سے ڈروکیونکہ وہ اللھ تعالٰی کے نور سے دیکھتا ہے. اس ولی کامل نے بھی اپنی نوراني نگاہ سے دیکھا کہ یہ تو کوئی معمولی ہستی نہیں ہے یہ تو حقیقت میں مادر زادولی ہے ایک چھپا ہوا موتی اور گوہر نایاب ہے جو آگے چل کر اپنی روشنی ظاہر فرمائے گا اور زنگ آلودہ دلوں کو چمکائے گا مردہ دلوں کو زندہ کرے گاسراپا سنت اور شریعت پرچل کر اپنے دور میں آفتاب عالمتاب بنکر ابھرے گا، اس لئے اس ولی کامل نے بھی اس پہنچی ہوئی ہستی کو یہ دُعائیہ کلمات دے کر اور آنے والی نسل کو بتاکر اپنے ثواب کا حصہ ڈالا، آخر کار ایسا ہی ہوا۔

        اس جگہ پر غلام ربانی آگرہ اپنی تصنیف سندہ جا بر، بحر اور پہاڑ میں یوں رقمطراز ہیں کہ اللھ تعالٰی نے اس درویش کی دُعا کو حرف بحرف قبول فرمایا۔ پیرسائیں سید محمد راشدرضی اللہ عنہ جب بڑے ہوئے تو رشد و ہدایت کی ایسی زوردار شمع روشن فرمائی کہ لوگ پتنگوں کی طرح اپنے آپ کو آپ پر قربان کرنے لگے بروں میں بازاریں بن گئیں لوگوں کا جم غفیر آپ پر پلٹ  پڑا ۔کہتے ہیں کہ سندھ نے ایسا منظر نہ کبھی پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔

یہی وجہ تھی کے آپ کےمعتقدین پروانہ اور دیوانہ وار آپ کی صحبت میں بیٹھتے اور فیض حاصل کرتے اور جا نثاری کا ثبوت دیتے تھے، آپ سے رخصت لے کرگھرجاتے تھے تو اُن کو چین نہیں آتا تھا ،پھر دوبارہ واپس آکر اپنے مرشد کی زیارت کرتے اور اپنے پیار و محبت کی پیاس بجھاتے ۔ ان خرقہ پوشوں کی جو حالت ہوتی تھی وہ حالت زار ہم بیان نہیں کرسکتے کیونکہ اُن کا سکون مُرشد کا دیدار اور مرشد کی دربار تھی، اس لئے کسی نے سچ کہا کہ اللھ اللھ کا مزہ مرشد کے آستانے میں ہے۔

آپ ﷺ کی دربار عالیہ میں کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پڑھنا اور علم کی طلب کرنا

 آپ اپنا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ ظاہری علم کے حاصل کرنے کے لئے کوٹڑی کبیر کے مدرسہ مخدوم یار محمد علیہ الرحمۃ کے پاس سفر کر کے گئے ،سفرکی دشواری اور تکلیف کی وجہ سے طبعیت ناساز و ناچاک ہوگئی ،پھر ہم نے ایک رات ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر پانچ ہزار مرتبہ درودشریف پڑھا اور آپﷺ کی روح مبارک کو نذرانہ پیش کیا اور نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ آپﷺ سے مدد طلب کی اور عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ سفر کی تکلیف اور تھکاوٹ جو پہنچی ہے وہ دور ہو اور علم سے بھی بہرہ ور فرمائیں پھر درود شریف کے پڑھنے کی برکت سے ایسی قلب کی صفائی حاصل ہوئی کہ جو علم نہیں پڑھے ہوئے تھے وہ بھی سب کے سب پڑے ہوئے جیسے معلوم ہونے لگے۔ مطلب کہ یہ ظاہری علم بھی آپ کو دربار مصطفٰی ﷺسے عطاہوئے ،پھر بھی آپ نے اس ظاہری علم کی تعلیم جاری وساری رکھی یہ درس و تدریس کا سلسلہ چلتا رہا  یہاں تک کہ دنیا کے دستور کے مطابق آپ نے دستار بندی کی اور اپنے اُستادوں سے دست شفقت کے ہاتھ سر پر پھروا کر دستار باندھی اور فراغت حاصل کی۔

آپ رضی اللہ عنہ معروف مؤرخین کی نظر میں

برصغیر کے مشہور و  معروف سیرت و  تاریخ نگار سید ابوالحسن علی ندوی  اپنی تصنیف پرانے چراغ میں یوں رقم طراز ہیں بارہویں صدی کے تقریبا وسط میں سندھ بلوچستان میں ایک مشہور پیر طریقت سید محمد راشد رضی اللہ عنہ گزرے ہیں ، میں نے مولانا عبیداللھ صاحب سندھی سے سنا ہے کہ وہ ان دیار میں علمی اور روحانی طور پر تقریباوہی مرتبہ اورشہرت رکھتے تھے جو اُن کے معاصر حضرت شاہ ولی اللھ صاحب دہلوی کا شمال مغربی ہندوستان میں تھا۔

 (سندھ جا بر، بحر اور پہاڑ مصنف غلام ربانی آگرہ)

        آپ کی گفتگو گوہر نایاب دلنشین اور دل آویز ہوا کرتی تھی۔ ہر بات قرآن و سنت اور شریعت کے موافق ہوتی تھی۔ ظاہری وباطنی علمی ، روحانی اور عرفانی نکتے بیان ہوتے تھے جو انسان کی ظاہری زندگی کو بدل کر ایک روح رواں اور ابدی زندگی بخشتے تھے جس وجہ سے آپ کے اردگرد عاشقوں کا پروانہ وار انبوہ ہوا کرتا تھا ۔اس بات پر آپ کی بیان کردہ واعظ و نصیحت کی باتیں جو ملفوظات کی صورت میں موجود ہیں جو آپ کے خلفاء نے جمع کیں ہیں آپ کے علمی مقام پر شاہد وگواہ ہیں، جس میں قرآن شریف کی آیات اور احادیث مبارکہ اور دیگر بزرگوں کے واعظ و نصیحت کی حکمت آموز باتیں اور اقوال زریں پائے جاتے ہیں، یہ سب کے سب اس بات کی غمازی کرتے ہیں کے آپ کی کتنی وسیع ترعلمی دسترس تھی اور کتنا وسیع تر مطالعہ تھا اور کتنے دوررس نگاہ کے مالک تھے۔  بقول علامہ اقبال ،

نگاہ بلند سخن دلنواز اور جاں پُر سوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

        بلاشک وشبہ رہبر روزہ دھنی رضی اللہ عنہکی ملفوظات شریف ہویا مکتوبات شریف دونوں کی دونوں علم و حکمت، معرفت و سنت کا انمول خزانہ ہیں اور حلقہ معتقدین کا سلسلہ جو پاک وہند تک پیلا ہوا ہے اُن کے لئے واعظ و نصیحت درس عبرت اور حکمت آموز حکایات و روایات کا بےمثل بحر ہے اور اپنے رب کے ساتھ ملانے کا ذریعہ بھی، فقط آپ کی ملفوظات شریف پڑھکر بھی  بھٹکے ہوئے لوگوں کو صحیح راستہ ملا اور اُن کی دلی مرادیں پوری ہوئیں اور اپنے رب کو پایا  اور دلی مدعاحاصل  کیا،کیونکہ حضرت رہبر روزہ دھنی رضی اللہ عنہ نے اپنے مُریدوں کی بنیاد ہی تقویٰ و   پرہیز گاری، تزکیہ نفس، توکل علی اللھ ،ذکر و فکر، عبادت و ریاضت، خوف خدا، اطاعت مُصطفٰے، اور سنت و شریعت کو فروغ دینے پر رکھی تھی، اس لئے آپ کے ملفوظات اور مکتوبات میں دنیا کو  ترک کرنے والی، اور اپنے رب سے ملا دینے والی ہی باتیں ملتی ہیں اور عشق و محبت ، ‌‌  حقیقت و معرفت کی باتیں اشاروں اشاروں میں سمجھائی گئیں ہیں جو سب کی سب علم و حلم حقیقت و معرفت پر دلالت کرتی ہیں۔

آپ کا روحانی فیض

        جیسا کہ آپ ظاہری علم کے چمکتے ہوئے سورج تھے اسی طرح ہی روحانی علم کے بھی روح رواں سالار اور چمکتے ہوئے سورج تھے جس کی شعاعیں ہندو سندھ بلوچستان اور افغانستان کے کونے کونے تک جاکر پہچی اور مردہ دلوں کو حیات ابدی بخشی، خواب غفلت سے بیدار کیا، محبت کے متوالوں کو صیحح مستی بخشی اور رب کے متلاشیوں کو راہ راست دکھائی، لاکھوں پروانوں مستانوں کو  مئے محبت پلائی، سراپا سنت و شریعت سکھائی، پابند صوم و صلوٰۃ کیا ، بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لگایا۔ دین و اسلام، سنت و شریعت کا وہ چراغ روشن کیا جو آج تک تابندہ روشن ہے صحبت میں بیٹھنے اور تربیت میں رہنے والوں میں ایسی توحید کی روح پھونکی کہ مرنے کے بعد بھی اُن کے مزاروں سے ذکر لاالٰہ الااللھ کی صدائیں سنی گئیں۔

        آپ صاحب نظر  پُر اثر ہونے کی وجہ سے سینکڑوں کو صاحب حال ،صاحب قال، صاحب حقیقت و معرفت اور پابند شریعت وسنت بنایا ۔آپ نے اپنے وصال کے وقت تقریبا تیرہ سؤ(1300) خلفاء چھوڑے جو سب کے سب بافیض اور رازدان حقیقت و معرفت تھے۔

خُدا رحمت کُند برعاشقاں پاک طینت را
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: سرزمين سنڌ پر ايڪ علمي اور روحاني بحر، حضرت روزه ڌني رهبر(اردو) Description: Rating: 5 Reviewed By: سکندری
Scroll to Top