728x90 AdSpace

Latest News

Ads 468x60px

19 August, 2013

ولایت کے افق کا ایک آفتابِ عالم تاب

ولایت کے افق کا ایک آفتابِ عالم تاب
                                        علامہ مفتی محمد رحیم سکندری
        رسولِ اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی کے بعد نبوت کا دروازہ قطعی بند ہوگیا کہ آپ ﷺ خاتم النبيـين تھے اور ہیں، آپ ﷺ کی شریعتِ مطہرہ کی الحاد اور بدعات سے حفاظت اور تجدید کی ضرورت ہر زمانے میں مختلف جہات میں رہی ،اور تاقیامت اس کا لازمی اہتمام قائم رہیگا ۔قرونِ اولٰے میں یہ فریضہ صحابہ کرام، تابعین ،تبع تابعین، محدثین ،فقہا ء،ائمہء کرام اور صلحاءامت نے سرانجام دیا،اسی سلسلۃ الذہب میں ایک آفتابِ عالمِ تاب حضرت سید محمد راشد قدس سرہ بن سید محمد بقا شاہ قدس سرہ وصال ۱۱۹۷ھ  کا اسمِ گرامی ہے ۔
        حضرت ابو الحسن خرقانی قدس سرہ کی ولادت سے پچاس سال قبل بایزید بسطامی نے خرقان سے گذرتے فرمایا تھا۔ اس مقام سے ایک مؤثر اور نورافزا خوشبوء محسوس ہورہی ہے جو ایک دنیا کو اپنی ولایت و برکات سے منور کریگی، بر صیغر کے ایک صوبہ سندھ سے اسی طرح کی خوشبو بہت سے صلحاءامت کو محسوس ہوئی۔
        حضرت مخدوم محمد اسماعیل{ پریاں لوء شریف} قدس سرہ نے آپ کے والد محمد بقا شاہ کو سید محمد راشد روضہ دھنی کی برکات کی اس وقت بشارت عطا فرمائی، جب سید محمد بقا  شاہ شہید نے ابھی شادی کا فیصلہ ہی نہیں کیا تھا، انکا  ارادہ یہ تھا کہ مبارک شادی کی بشارت جب تک نہیں ملتی، اس وقت شادی کرنا بس عفت ذات اور معمول کی سنت متوارثہ ہے۔
        حضرت مخدوم محمد اسمعیل ہی نے آپکو بشارت دی :فرمایا تیری اولاد صالح ہوگی، مگر ایک فرزند دلبند سے ایک بڑی دنیا فیضیاب ہوگی، دوسری روایت یہ بھی ہے کہ سید محمد بقا  شاہ شہید کی پاکیزہ خواہش اور التماس پر آپ کے شیخ مخدوم محمد اسمعیل نے آپ کو بارگاہِ رسالت ماٰبﷺکی محفل پاک میں زیارت کی عظیم نعمت سے نوازا، حاضرین محفل کو آپﷺ حسب، عادت مفتخرہ مناسب ہدایا عطافرمائے ۔سید بقا شاہ کو کوئی تحفہ عطا نہ ہوا، آپ کے شیخ حضرت مخدوم صاحب نے اپنے مخلص مرید کو ہدیہ عطا کرنیکی درخواست کی ،تو آپﷺ نے اپنا با برکت عمامہ شریف سید محمد بقا  شاہ شہید کو عطا فرمایا، ارشاد ہوا یہ عمامہ آپ کے صاحبزادہ کے لئے عطیہ ہے ۔وہ صاحبزادہ سید محمد راشد روضہ دھنی ہی ہے ،حضرت مخدوم صاحب نے جو بشارت عطا فرمائی تھی وہ اپنی ذات کی طرف سے نہیں ،بلکہ  اللھ تعالٰی اور اس کے رسول مقبولﷺ کی جانب سے تھی سبحان اللھ
عہدطفلی :
        صاحبزادہ پیر سائیں سید محمد راشد روضہ دھنی کی بچپن کے ایام بھی عجیب اور ایمان افروز ہیں، اکثر صلحاء حصولِ برکت اور سعادت کے لئے انہیں دوش پر اٹھاتے رہے، کبھی کبھار کچھ پریشان خواتین و حضرت اپنی پریشانیاں بتاکر حصولِ دُعا کے لئے عرض کرتیں تھیں، تو جواب میں ارشاد فرماتے  میٹھی روٹیاں پکا کر پرندوں کو کھلادیں ! اور اس عمل سے پریشانی ختم ہوجاتی تھی، آپ کے بچپن سے آپ کے شباب کے بہار اور حسن ِمنظرِ سعادت اور رونقیں ملاحظہ کرنا دشوار نہیں۔
       سید امام العارفین، مادرزاد ولی، سید محمد راشد روضی دھنی کی یکم شعبان ۱۱۷۱ھ کو ولادت ہوئی ۔تو والدِ محترم ولدِسعید کو حضرت مخدوم صاحب کے حضور دُعا اور بشارت کے تیقن کے لئے لے گئے، دوسری عجیب کرامت یہ ہوئی کہ حضرت مخدوم سائیں قدس سرہ پر ولدِسعید کی ولادت منکشف ہوئی، تو آپ نو مولود کی زیارت کونکلے، راستہ میں حضرت مخدوم صاحب سید محمد بقا شاہ شہید کے فرزند دلبند کی ملاقات اور زیارت ہوگئی، ولدِسعید جو"من کان فی  المھد صبیا" کی عمر میں یا اس سے بھی کم عمر ہیں،سید محمد راشد ولد سید محمد بقا شاہ شہید کے دامن ِقمیص کو پکڑ کر گویا ہیں کہ سید زادہ محمد راشد !  روز قیامت محمد اسمعیل کی پارت ہو۔ چشم تک نے اس قسم کے مناظر شایدہی کہیں دیکھے ہوں، کہ ایک معمرشیخ اپنے خلیفہ اور خادم و مرید حضرت محمد بقا شاہ شہید کے صغیر صاحبزادہ{ جن کی اس وقت عمر ایک دن بھی نہیں بلکہ چند ساعت ہی ہے}کو کہیں کہ تجھے میری پارت ہو
                        قباس کن زگل ستان من بہارمرا
آپکی تعلیم کا اہتمام؛                                                          آپ نے کلام پاک کی تعلیم حضرت حافظ زین الدین رحمتہ اللھ علیہ سے حاصل کی  ،حافظ زین الدین مھیسر رحمۃاللھ علیہ ولیءکامل،اور  شب و خیزی و اٰہِ سحر گاہی  سے مالاما ل نیکوکار بندہ  تھے ،حافظ زین الدین رحمتہ اللھ  علیہ  مرید و خلیفہ مجاز حضرت سید محمد بقا شاہ تھے، صاحبزادہ پیر سید محمد راشد قدس سرہ کے استاد تھے ،مگر مرشد زادہ، اور ولی کامل ہونیکے باعث ،انکا کمال درجہ کا احترام کرتے تھے ۔
        ملفوظات شریف  میں ہے کہ ایک بار حافظ صاحب پیرسائیں محمد بقا شاہ کے ہاں مہمان ہوئے، تو آپ نے صاحبزادہ محمد راشد شاہ اور سید عبدالرسول شاہ سے فرمایا، آپ کے استاد محترم حافظ زین الدین مہمان ہیں، وہ رات مسجد شریف میں بسر کرینگے آپ دونوں بھائی ان کی خدمت میں مسجد شریف میں قیام کریں! تعمیلِ ارشاد میں ایسا ہی ہوا ایک صاحبزادہ  آپکے   دائیں طرف دوسرا بائیں طرف سو گیا، سونے کو حافظ صاحب سو گیا، مگر اس اندیشے نے آپ کی نیند اڑادی ،ایسا نہ ہو کہ سوتے غفلت میں مرشد کے کسی صاحبزادہ کی طرف پیٹھ ہوجائے ، حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمۃ معمولی نمونہء استراحۃ کے بعد تہجد اور نوافل میں شروع ہوگئے ، یہی پیکرِ ادب حافظ صاحب آپ کے استاد  کامل تھے، آپ کی فارسی اور عربی تعلیم کے لئے حاجی فقیر اللہ علوی کے مدرسہ کا انتخاب ہوا ان دنوں یہ مدرسہ تعلیم کے علاوہ طلباء کے قیام و  طعام کی خدمات میں معروف و مشہور تھے۔
        پیر سید محمد بقا شاہ قدس سرہ نے اس مدرسہ کا انتخاب حاجی فقیر  اللہ علوی کی کمال علمی شخصیت اور نقشبندی شیخ کے ناطے ہی کیا ہوگا، وہ حضرت مخدوم محمد اسمعیل{ پریالو شریف }کے ہم مشرب ہی نہیں تھے ہم نفس اور شریک ذوق و وجدان بھی تھے۔ والد گرامی قدس سرہ نے اپنے فرزندوں کو مدرسہ میں داخل کرتے وقت ایک خصوصی منفرد اور اہم وصیت یہ فرمائی تھی، میرے بیٹے آپکی تعلیم بنیادی مقصد ہے ،دین و سنت کی تعلیم اور اللہ تعالٰی اس کے رسول اکرمﷺ کی رضا، مقصود علمی شہرت یا مناظر و  مدرس بننا قطعا نہیں ،اس عمر ِطفلی میں صاحبزادہ کو رضاءا لہٰی اور احیاء سنت کی وصیت غور طلب امرہے ، الحمدللہ اسی عظیم وصیت اور نصیحت کا رنگ آپکی پوری حیاتِ  طیبہ میں نمایاں اور واضح رہا،  کچھ عرصہ کے بعد حضرت والد قدس سرہ  صاحبزادگان کی تعلیمی صورت حال معلوم کرنے کو آئے ،تو آپ پر صاحبزادگان کے غیر معمولی  طعامکے  تکلف کی صورت حال گراں گذری ،دل میں صاحبزادگان کی  اس ماحول میں تعلیم سے رنجیدہ ہوئے ، فرمایا جہاں پُر تکلفطعام کا انتظام ہوگا ،وہاں قلبی اور روحانی غرض وغایت متاثر ہوگی، با کمال اور اعلےٰ تعلیم کے لئے تو روکھی سوکھی روٹی ضروری ہے، آپ نے ان کوو  ہاں سے اٹھاکر مخدوم یارمحمد کوٹڑی کبیر کے عظیم درس گاہ میں داخل کیا، وہاں مشہور علمی گھر انونکے  صاحبزادگان تعلیم لے رہے تھے، سید عاقل شاہ ہالانی ، حکیم بصرالدین کے صاحبزادہ اور دیگر رفقاء آپ کے کلاس فیلو تھے۔
        پیر سید محمد راشد قدس سرہ   ذہانت و فطانت،ذکاوت اور محنت میں نمایاں تھے، مشکل مقامات اور مسائل میں وہ پیر محمد راشد شاہ ہی کی طرف رجوع  فرما تھے، ایک مرتبہ زکام کی وجہ سے آپ شدید سردرد کی تکلیف محسوس فرمارہے تھے کہ حکیم صاحب کے صاحبزادہ نے سبق کی تشریح کے لئے گذارش کی تو آپ نے وجع الراس کی شکایت اور ناس کے نسخہ کی فرمائش فرمائی، حکیم صاحب کے صاحبزادہ نے فقط ناس نہیں اس کا نسخہ پیش کردیا، پھر آپ نے حسب وعدہ  ان کو سبق سمجھا دیا۔
        پیر سید محمد بقا  شاہ شہید  نے ایک طرف اپنے صاحبزادگان کی تعلیم کا مکمل احتیاط اور سعیِ بلیغ سے کام لیا ،چونکہ علم نافع اس وقت تک مؤثر نہیں ہوتا جب تک عمل صالح کی تربیت اور تزکیہ نفس کی بھی پوری طرح رعایت ہو ،توگویا دوسری طرف تعلیم کے ساتھ تزکیہ اور تربیت کی بہی  سعی بلیغ  کی۔
       حضرت پیر سید محمد بقا شاہ شہید نے کوٹڑی ہی میں تزکیہء نفس اور تربیت کا یہ اہتمام فرمالیا کہ حضرت پیر سید محمد راشد روضہ دھنی نے فرمایا، والد بزرگوار قدس سرہ نے ہم دو بھائیوں کو نقشبندی سلسلہ کے ابتدائی اسباق دیئے، ہم نے مشق کی کوشش کی مگر میرے دل میں کچھ زیادہ اثر ظاہر نہیں ہوا، والد قدس سرہ کچھ دنوں بعد خبرگیری کے لئے تشریف لائے ،میں نے گذارش کی  کہ درس کی مشق نے مجھ پر کوئی اثر نہیں کیا، پھر حضرت نے ہمیں قادری سلسلے کے ابتدائی اسباق دیئے، جس کی مشق نے میرے دل و دماغ پر واضح مؤثر نقوش ظاہر کئے، ایسے محسوس ہوتا جیسے جسم کا بال بال ذکر میں مشغول ہوگیا ،گویا درس و تدریس ،کتب بینی اور کتب فہمی کے علاوہ ذکرو اذکار، لسانی ذکر توجہ الیٰ اللہ اور مراقبہ تعلیم کا اہم حصہ ہے،تعلیم کے اس نہج کے اپنے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ظاہری علوم اور کتب سے محبت کے علاوہ  دل و دماغ کے دریچے باطنی انوار و تجلیات سے منور ہونے لگتے ہیں۔
انما یخشىٰ الله من عبادہ العلماء میں اس تعلیم اور علوم کی طرف اشارہ ہے
مختصر یہ کہ حضرت پیر سائیں محمد بقا  شاہ شہید نے صاحبزادگان کی ظاہری تعلیم کے ساتھ باطنی علوم پر ایک ساتھ منفرد نہج اختیار کیا آگے یہی سلسلہ ان کے فرزند جلیل القدر امام العارفین محمد راشد روضہ دھنی نے اپنی اولاد علماء اور خلفاء کے لئے اختیار فرمایا۔
        حضرت پیر سید محمد راشد جس باکمال علمی اور روحانی مقام پر فائز ہوئے وہ اس قدر مؤثر اور بلیغ تھا کہ والد پیرسید محمد راشد نے اپنے بے مثال اور پاکیزہ حیات طیبہ ہی میں صاحبزادہ کو سجادہ نشین ،امامت اور خطابت کی مسند پر جلوہ افروز کیا، فرمایا کرتے ان کے دائیں اور پیچھے میں ہوں حضرت مخدوم صاحب پریالوی  ہیں----
قبلہ رخ رسول اللھﷺ اور سیدنا عبدالقادرگیلانی ہیں ان شاء اللھ ان کے مریدین اور مستفیضین کا  بیڑا پارہے۔ حضرت پیر سیدمحمدراشد احیاءِسنت، اماتتِ بدعات اور فانی فی حب اللھ والرسولﷺ کے ارفع مقام کے باعث اس عظیم مقام پر فائز تھے جس کی برکت سے انکے متبعین اور مخلص مریدین کی یقینی فلاح کی ضمانت ہے ۔
حدیث شریف "المرء   مع من احب"
(یعنی ہر  آدمی قیامت کے دن اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا) میں اسی طرف واضح اشارا ہے
آپ کی تصنیف  کے شاھپارے جو آپ نے تحریر فرمائے اس کی تفصیل بھی عجیب و غریب ہے دن کو سفر، فرائض کی ادائگی صاحبزادگان کے اسباق اور جماعت کی تز کیہ و تربیت اور افاضہ{لوٹنا} کے بعد نماز عشاء پھر دس یا بیس موم بتیاں روشن کرواکے جمع الجوامع کا مطلوبہ مواد ماٰخذِ کتب اور یاد داشت سے جمع کرتے،تہجد کے وقت تمام مواد تبیض یا فیئر  کر لیتے،  اس طرح جمع الجوامع کی ضخیم سات جلدوں پر نادرِ روزگار کتاب تصنیف ہوگئی، حضرت قدس سرہ کے ارشاد کے مطابق یہ تمام برکت درود شریف اور استغاثہ کے بدولت ملی، پیر سید محمد راشد قدس سرہ اکثر و بیشتر صاحبزادگان کی تعلیم کا اہتمام خود فرماتے، تعلیم میں مطالعہ، اسباق کا تکرار ،کتاب کے مالہ وماعلیھا کی افہمام و تفہیم سب اپنی نظر میں رکھتے، صاحبزادگان کو تعلیم کی اہمیت کے ساتھ انتہائی اہم حقیقت اول روز سے ذہن نشین فرمادی، وہ یہ کہ حصول علم کا مقصد فقط اور فقط رسول اکرمﷺکے دین کی معرفت، احیاءِ سنت واماتتِ بدعت ہے۔ ظاہر ہے اس کے لئے تعلیم اور بہتر تعلیم ضروری ہے،یہی تعلیم انما بخشے اللہ من عبادہ العلماء" کا نمونہ ہے ،اسی علم کی برکت سے عالم خود متقی صالح موفق اور صاحب معرفت بن جاتا ہے، حضرت پیر سائیں محمد راشد دورانِ سفر صاحبزادگان کی تعلیم کے ساتھ مریدین "صحبت صلحاء" کا موقعہ بھی فرماتے، پیر سائیں محمد راشد قدس سرہ العزیز کی تعلیم میں آپ کے والد قدس سرہ ،اساتذہ علیہم الرحمۃ نے جن ضروری امور کی رعایت کی آپ نے اپنے اولاد کی تعلیم تزکیہء نفس بالخصوص تعلیم کے پاکیزہ غرض و غایت کا لازمی خیال فرمایا۔
پیر سید محمد راشد شاہ روضہ دھنی  تعلیمِ سنت،  تزکیہ نفوس کے جلیل القدر منصب پر  
        حضرت پیر سید محمد راشد جس نے اپنے والد کے زیرسایہ جلیل القدر اساتذہ حافظ زین الدین مخدوم یار محمد کوٹڑی کبیر حاجی فقیر اللھ علوی اور حضرت علامہ محمد آریجوی (موجودہ خیر محمد آریجہ)جیسے مشاہیر سے علوم و فنون تفسیر و حدیث فقہ اور تصوف کا خصوصی استفادہ کیا۔
       حضرت علامہ مخدوم الصلحاء مولٰنا محمد قاسم مشوری کی تحقیق کے مطابق آپ آخری کتب آریجہ میں پڑھ کر فارغ ہوئے، " واللہ اعلم"  مگر خلیفہ محمود فقیر{جامع ملفوظات شریف}کے مطابق آپ کی تعلیم کے آخری ایام کوٹڑی کبیر میں گزرے، ملفوظات شریف کے مطابق آپ فرماتےہیں، کوٹڑی کبیر میں سفر کی صعوبت کافی مشکل محسوس ہوئی، رات کو قیام کی حالت میں پانچ ہزار مرتبہ درود شریف پڑھ کر آپﷺ کی بارگاہ میں ہد یہ پیش کرتے ہوئے، استغاثہ اور امداد کی گذارش کی ،یا رسول اللھ!اب  مزید سفر کی تکلیف مشکل محسوس ہورہی ہے، مدد فرمائیں! خواندہ نا خواندہ علوم سب ازبر ہو جائیں۔ صلوٰۃ شریف کی برکت سے تمام علوم آسان اور ازبر ہوگئے۔ آپ کی ملفوظات، مکتوبات، جمع الجوامع  آپ کی تبحر ِعلمی کے خوبصورت آئینے ہیں۔ جمع الجوامع جو لغت، ادب، انسائیکلوپیڈیا کی جامع ترین کتاب ہے جسے کوئی ایک ماہر نہیں بلکہ ایک پوری   انجمن مل کر تیار کرسکتی تھی، مگر پیر سید محمد راشد نابغہءِروز گار شخصیت نے کی، لائبریری میں بیٹھ کر نہیں بلکہ سفر کے دوران۔ مختصر اینکہ حضرت پیر سائیں روضہ والا جس مختصر وقت میں عظیم و وسیع خدماتِ جلیلہ سر انجام دے رہے تھے یہ وقت اور کام کی  برکت انکی حسین کرامت تھی، سفر کی صعوبتوں کے باوجود طلباء اور صاحبزادگان کے اسباق کی بحالی، شب و روز کے تلاوتِ اوراد کی باقاعدگی سے مواظبت، تصنیف و تالیف اور تسویدو تبییض اور مطالعہ کی باقاعدگی، ایک ایسی روایت ہے جو فقط کامل ولی اور عارف باللہ ہی سے ممکن ہے۔
        صفۃ الصفوۃ میں ایسی درجنوں روایات ہیں جن کے مطابق ایک عارف دورانِ طواف زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں قرآن شریف کے کئی سو ختم شریف پڑھ لیتا تھا، سیدنا  علی کرم اللہ وجھہ سواری پر سوارہونے کے وقت پائوں  رکاب میں رکھنے کے چند ثانیوں {سیکنڈز}میں کلام پاک ختم کر لیتا تھا، امام شافعی مدینہ طیبہ کے سفر کے دوران دن کو ایک ختم، رات کو ایک ایک ختم ،آٹھ دن میں سولہ ختم، ضروری اسراحت،فرائض کی ادائگی اور طعام وغیرہ کے اوقات نکال کرکرلیتے۔  امام شافعی کے شریک ِسفر اونٹ بان نے تین دن میں تلاوت فقط سنکر پورا کلام پاک یاد کرلیا، اللھ تعالٰی کی یہ عنایات اولیاء کرام ہی کی ذات گرامی سے متعلق ہے
       
        بحمدہ تعالٰی راقم الحروف نے ۲۷ دن میں پورا کلام پاک حفظ کیا  اور رات کو تراویح  کا مصلٰے سنایا یہ اعجازِ کلامِ پاک ہے۔
       حضرت قبلہ پیر سائیں محمد راشد قدس سرہ العزیز کی ذات گرامی کرامت کی ایک خوبصورت جھلک ہیں، جس نے زندگی کے مختصر ترین لمحات میں کئی  امور بیک وقت سرانجام دیئے، آپ کی تمام تر زندگی روشن آفتاب تھی۔
مثنوی شریف
مولاءِ روم کی مثنوی میں کیسی چاشنی اور لذت ہے جسے ہر زمانے میں صوفیا ءنے دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا۔
        حضرت پیر سیدمحمد راشد نے مثنوی شریف کی اس  ذوق و لذت کو درس مثنوی شریف کے ذریعے مریدین، مصاحبین، ہم نشین، طلباء میں نہایت مؤثر اور جامع انداز میں تقسیم فرمایا، یہ بے بہا اور بے مثال موتی یا  ہیرے تصور کریں۔ مثنوی شریف کے نکات اور مؤثر و لطیف پیرایہ کی شرح عارف باللہ پیر سائیں روضہ دھنی  جب بیان فرمانے  لگتے تو غیب سے انوارو تجلیات کی بارش محسوس ہونے لگتی، قلب و ذہن کی بے اختیار رقت آنکھوں سے جھلک اٹھتی، اس بابرکت لمحات میں اکثر جماعت محسوس کرتی تھی کہ وہ فرشتوں جیسی پاکیزہ صفات لوگوں کی محفل میں ہیں۔ باری تعالٰے کے الطافِ بے غایات کی معطر فضا کی خوشبو کا عمیق احساس کرتے۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

1 comments:

  1. هميشه جيان هن ڀيري بہ سائين مفتي محمد رحيم سڪندري صاحب جي جي قلم مان نڪتل هي هڪ بهترين ليک آهي ۽ انتهائي معلوماتي پڻ۔ هن ليک جي ذريعي سيدنا حضرت محمد راشد روضي ڌڻي رضي الله عنہ جن جي سوانح حيات جي متعلق ڪافي ڄاڻ پرائي اٿم جيڪا مون کي اڳ ۾ بلڪل بہ معلوم نہ هئي۔
    الله سائين قبلا استاذالعلماء مفتي محمد رحيم سڪندري صاحب جن کي ڪامل صحت عطا فرمائي، تہ جيئن اسان جهڙا گھرجائو سندن علمي فيض ۾ مستفيذ ٿي سگھن۔ آمين۔

    ReplyDelete

Item Reviewed: ولایت کے افق کا ایک آفتابِ عالم تاب Description: Rating: 5 Reviewed By: سکندری
Scroll to Top