728x90 AdSpace

Latest News

Ads 468x60px

19 August, 2013

حضرت پيرسائين روزي ڌني رضي الله عنه جي ملفوظات جي تلخيص ۽ ترجمو (اردو)

حضرت پیر سائیں روزہ دھنی قُدس سرہ کے ملفوظات مبارکہ کی تلخیص و ترجمہ
                                         ابوالحسان علامہ حکیم محمد رمضان علی قادری
اولیاءِ امت کا وجود امَت مرحومہ کے لئے اللھ تعالٰی کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔ اللھ تعالٰی نے ان نفوس قُدسیہ کو اپنی دوستی و ولایت سے مخصوص کر کے اپنے ملک کا والی بنایا ہے اور ان کے احوال کو برگزیدہ کرکے اپنے فعل و اظہار کا مرکز بنایا ہے۔ یہ حضرات اللھ تعالٰی کے محبوب مکرم، نورِ مجسم، رحمت دوعالم، سید الاولین والآخرین خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللھﷺ و صحبہ وسلم اجمعین کی عظمت کا نشان ہیں۔ اور ان کے معجزات کی دلیل ہیں۔ براہین نبوت کے اظہار کا سبب ہیں۔ تاکہ آیاتِ حق اور حضور اکرم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی صداقت کے دلائل ہمیشہ ظاہر ہوتے رہیں۔ اولیاء کرام شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام کے امین ہیں۔ مخلوقِ خدا تک احکام خدا اور رسول علیہ التحیۃ والتسلیم کے پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ بزرگانِ امت، شریعت حَقہ سے لوگوں کو روشناس کرتے ہیں، اسرار و رموز ظاہری و باطنی سے آگاہی بخشتے ہیں۔ رسول ﷺ کے فیوض و برکات سے فیضیاب و مالا مال فرماتے ہیں۔ لوگوں کی ظاہری حالت کو سدھارتے اور ان کے باطن کو سنوارتے ہیں اپنے متوسلین کو عرفاِن نفس، عرفانِ شیخ اور عرفانِ حقیقت محمدیہ کی منازل طے کراکرعرفانِ الٰہی کی منزلِ مقصود تک پہنچا دیتے ہیں۔
        انہی کے قدموں کی برکت سے بارش برستی ہے۔ زمین میں جو کچھ اُگتا ہے وہ انہی کی برکت اور انہی کے احوال کی صفائی کی بدولت پیدا ہوتا ہے۔ کافروں پر فتحیابی انہی کے ارادے سے حاصل ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ انہی پاک ہستیوں کے دم قدم کے طفیل زمین و آسمان قائم ہیں۔
        ان سے محبت رکھنا اللھ و رسول ﷺ سے محبت رکھنے کی دلیل ہے ان کی مجلس میں حاضری دربار خداوندی کی حاضری ہے ۔ ان سے دور رہنا اللھ سے دوری ہے۔ ان سےعداوت رکھنا،ان کی مخالفت کرنا اللھ تعالیٰ سے جنگ مول لینے کے مترادف ہے۔ ان کی غلامی اختیار کرنےوالا ان سے نسبت رکھنے والا۔ اللھ تعالٰی کی رحمتوں سے محروم نہیں رہتا۔ اس کا انجام بخیر ہوتا ہے۔ روز محشر انہی کے ساتھ اس کا حشر ہوگا۔ اور جنت الفردوس میں انہی برگزیدہ نفوس قدسیہ کی معیت میں رہے گا۔ یہ جملہ اُمور قرآن و حدیث سے بالبداہت ثابت ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جن میں کسی صحیح العقیدہ مسلمان کو شک کرنے کی قطعا گنجائش نہیں ہے۔
فالحمداللھ علٰی ذالک والصلٰوٰۃوالسلام علی حبیبہ سیدنا محمد و علٰی آلہ و صحبہ اجمعین۔
        تمام علماء حق و بزرگان سلف و خلف اس بات پر متفق ہیں کہ اولیاء حق کا کلام برحق ہے۔ قرآن مجید و حدیث رسول ﷺ کے بعد اولیا ء  اللھ کے اقوال و ملفوظاتِ مبارکہ کو دیگر تمام علوم پر فوقیت و اولیت حاصل ہے۔ ان کا کلام علم لُدنی اور عالمِ اعیان سے ہوتا ہے۔ ان کی زبان حق کی ترجمان ہوتی ہے۔ ان کے منہ سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ سراسراسرار الہٰی اور الہام کا ثمرہ ہوتے ہیں۔ان کا علم وہبی ہوتا ہے نہ کہ کسبی۔ علماء ظاہر کا علم کسبی اور کتب کی تعلیم و تکرار اور ظاہری افہام و تفہیم پر مبنی ہوتاہے۔ پس علماء ظاہر جو کچھ کہتے ہیں کتابوں میں سے پڑھ کر کہتے ہیں مگر اولیاء اللھ جو کچھ کہتے ہیں الہام الٰہی سے مشاہدہ کی بنا پر کہتے ہیں۔ اس لیئے مسلمانوں کو لازم ہے ک وہ اولیاء کا ملین کی صحبت اختیار کریں۔ اور اگر کسی وجہ سے ان کی حضوری حاصل نہ ہو تو تلاوت قرآن مجید و مطالعہ حدیث شریف کیساتھ ساتھ اقوال و ملفوظات اولیاء اللھ کا مطالعہ کرتے رہیں تاکہ ان کے فیوض و برکات سے بہرہ ور رہیں ۔ اس لئے کہ ان کے ملفوظات مبارکہ فیوض و برکات کا خزینہ ہیں ان کا کلام خاص تاثیر رکھتا ہے۔ ان کا کلام امراض روحانی کو شفاء اور قلوبِ  زنگ آلود کو جلا بخشتا ہے۔ ان کے ارشادات کی روشنی میں راہِ سلوک واضع اور آسان ہوجاتی ہے۔ اور اس راہ میں حائل تمام مشلات حل اور جملہ روکاوٹیں دُور ہو جاتی ہیں۔
        فقیر راقم الحروف کی یہ خوش قسمتی ہے کہ کچھ عرصہ قبل میرے انتہائی کرم فرما اورمخلص دوست حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب سکندری سلمہ اللھ نے حضرت شیخ المشائخ سید محمد راشد الملقب بہ پیر سائیں روضے دھنی قد سنا اللھ باسرارہ العزیزۃ کے ملفوظات شریف کی تلخیص و ترجمہ بزبان اردو کر دینے کی فرمائش کی تاکہ اردو دان حضرات بھی اس گنجینہ و برکات سے بہرہ ور اور تشنگانِ طریقت و حقیقت اس بحرِ کرامت سے سیراب ہوسکیں۔
        فقیر نے ان کی فرمائش کو جوش عقیدت میں بکمال مسرت پایہ تکمیل تک پہنچانے کا وعدہ کر تو لیا، لیکن جب کاغذ قلم سنبھال کر اس مہتم بالشان کام کا آغاز کیا تو اس وقت یہ اندازہ ہوا کہ یہ کام کس قدر مشکل اور یہ مہم کتنی بھاری ہے۔ بقول حافظ شرازی علیہ الرحمۃ         کہ عشق آسان نمود اول دلے افتاد مشکلہا
اصحابِ علم و دانش بخوبی جانتے ہیں کہ ایک زبان سے کسی مضمون کو دوسری زبان میں اس طور پر منتقل کرنا کہ اصل مضمون کی سلیسی ، نفاست اور لطافت کو ٹھیس تک نہ پہنچے کتنا دشوار کام ہے۔ یہ کام بطریق احسن و ہی شخص کرسکتا ہے جسے ان دونوں زبانوں پر بخوبی عبور حاصل ہو۔ اس میں مہارت تامہ رکھتا ہو۔ اور مضمون کی نوعیت، گہرائی اور اس کے رموز نکات و مصطلحات سے بھی باخبر ہو۔
        بالخصوص اس وقت تو یہ کام اور بھی زیادہ مشکل ہوجاتا ہے جبکہ صاحبِ مضمون ہر لحاظ سے انتہائی بلند مقام پر فائز بہی ہو ۔ چنانچہ فقیر جب مجمع فیوضات یعنی ملفوظات حضرت پیر سائیں روزہ دھنی قد سنا اللھ باسرارہ العزیزۃ کی تلخیص و ترجمہ کرنے بیھٹا تو خود کو ہر لحاظ سے کمتر اور بے بس پایا۔اس لئے کہ ایک عظیم ولی اللھ، عالی مرتبت روحانی پیشوا اور عارف باللھ کے عارفانہ الہامی کلام کو سمجھ کر سندھی زبان سے اردو زبان میں منتقل کرنے کے لئے جو قابلیت درکار ہے راقم الحروف اس سے یکسر عاری تھا۔
        تاہم چونکہ فقیر، غلامِ غلامانِ اولیاء اورعلماء و مشائخ کا کفش بردار ہے۔ نیز عرصہ تقریبا بتیس ۳۲ سال سے حضرت پیر سائیں روزہ دھنی علیہ الرحمۃ سے بی بطریق  اویسیاں منتسب، متعلق اور مستنید و مستفیض ہے۔ ان کے آستانہ عالیہ پر متعدد مرتبہ حاضر ہوکر ان کی تجلیاتِ ولایت اور فیوض و برکات کا مشاہدہ کر چکا ہے۔ اپنے سرپر ان کا سایہ عاطفت و دستِ شفقت مستقلا  موجود دیکھ رہا ہے۔ ان کے ملفوظات مبارکہ کا از اول تا آخر متعد د مرتبہ بنظر غائر مطالعہ کر کے اپنے قلب و نظر کو مصطفٰی و مجلا کر لینے کی پہیم کوشش کرتا چلا آرہا ہے۔  ہر جمعہ کے وعظ میں ایک یاد و ملفوظ بالالتزام پڑھ کر سنانے کو معمول بنائے ہوئے ہے۔ اس لیئے ضمیر نے اجازت نہ دی کہ اس متبرک اور انتہائی مفید کام سے پہلو تہی کرلوں۔ اندرسے ندا آئی۔
ھل جزاء الاحسان الا الا حسان
        اپنے محسن و مشفق و مربی کے احسانات کو فراموش نہ کر جو کچھ بھی بن پڑے ٹوٹی پھوٹی ہی سہی اپنی سی کوشش کر گذر۔
فقیر نے السعی منی والا تمام من اللھ کہہ کر توکلا علی اللہ، تلخیص و ترجمہ کا آغاز کر دیا۔ اور بفضلہ تعالٰی ثم بفضل رسولہ الاعلٰی ﷺ مرشد و مربی پیر سائیں روزہ دھنی علیہ الرحمۃ کی توجہ خاص کی بدولت یہ مہتم بالشان کام چند ماہ میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ فالحمدللھ علی' ذالک۔
        فقیر کی یہ کوشش کہاں تک کامیاب رہی؟ یہ صاحبانِ علم و نظر ہتا سکیں گے۔ بہر حال فقیر دست بدعا ہے کہ اللھ جل شانہ فقیر کی اس کوشش حقیر کو مقبول و منظورفرمائے اور فقیر پُر تقصیر کی نجاتِ اخروی کا ذریعہ بنادے۔ نیز قارئین کے لئے بھی باعث اصلاح ظاہری وباطنی اور دنیا و آخرت میں کامیابی و سرخروئی کا باعث ہو۔ آمین، یارب العالمین بحرمت سیدالمرسلین ﷺ
        پیر سائیں روزہ دھنی علیہ الرحمۃ تاحیات، سنتِ رسول اکرم ﷺ کی مکمل متابعت میں ثابت قدم رہے۔ آپ ان گمراہ پیروں فقیروں کی سخت تردید کرتے تھے جو یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ شریعت و طریقت باہم مخالف و متصادم ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ۔
آج کی موحدین کی حالت پر ہمیں تعجب آتا ہے جو ظاہری عبادت میں سُستی، کاہلی اختیار کرتے ہیں۔ اللھ تعالٰی کی عبادت (نماز، روزہ وغیرہ) میں ان کا دل نہیں لگتا۔ اگر یہ لوگ واقعی موحد ہوتے تو ان کا یہ حال ہرگز نہ ہوتا کیونکہ سچے موحدِ کو (عبادت) کے کسی بھی کام میں گرانی اور پریشانی نہیں ہوا کرتی۔ پس یہ (پیری فقیری کے دعویدار) جو ظاہری عبادت سے تنگ ہوجاتے ہیں۔ ان کو کیا کہا جائے؟ شاید کہ یہ موحد نہیں بلکہ یہ لوگ مُلحد ہیں۔     (ملفوظات ص ۱۴۸ حصہ اول)
        آپ دینی و دنیاوی تمام امور میں احکام شریعت کو پیش نظر رکھتے تھے۔ ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی کہ کوئی بھی چھوٹا بڑا کام سنتِ نبوی کے خلاف نہ ہو۔ ہر معاملے میں شریعت مطہرہ کے مطابق عمل  کرنے کو دنیوی و اُخروی کامیابی کے لئے لازم قرار دیتے تھے۔ ایک موقعہ پر آپ نے ارشاد فرمایا  اہل ظاہر شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی یوں مثال دیا کرتے ہیں کہ شریعت پاجامہ کے مانند ہے۔ طریقت کرتہ کے مثال ، حقیقت بمنزلہ چادر کے ہے اور معرفت پگڑی کی طرح ہے۔ اس کے بعد آپ نے (بطور محاکمہ) فرمایا۔ ہمارا مذہب اور طریقہ یہ ہے کہ شریعت جسے اہل ظاہر پاجامہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے بمنزلہ دستار اور سر کا تاج ہے۔ (ملفوظات ص ۴۶/۱۲ ج اول
آپ خلاف شرع اور سنت کے تارک (جعلی پیروں فقیروں) کے خلافِ حقیقت ، حرکات پر انتہائی رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بڑے دُکھ کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں۔
        تعجب کا مقام ہے کہ یہ (نام نہاد) بزرگ، اگرچہ ظاہری علم اور متابعت سنت سے واقف (تو) ہیں لیکن اس کے باوجود مسنون کاموں کے نزدیک نہیں جاتے۔ رسوم کی اتباع انہیں سنت نبوی علٰی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام کی اتباع سے محروم کئے ہوئے ہے۔ حالانکہ یہ ایک سچی حقیقت ہے کہ ہر دوجہان میں کامیابی و سُرخروئی کا حصول متابعت (سنت) کے بغیر محال ہے۔      (ملفوظات ص ۸۸ ج اول)
        آپ کے ملفوظات مبارکہ کے مطالعہ سے یہ امر روز روشن کی واضح ہوتا ہے کہ آپ اگر علوم کتابی و اکتسابی کے لحاظ سے ایک عالم متبحر تھے تو علوم باطنی، وہبی و الہامی کے بھی بحر بےکنار تھے۔ آپ کا مطالعہ بیحد وسیع تھا۔ آپ کی فکرو نظر انتہائی دقیق اور باطنی علوم کی گہرائیوں اور تمام تر نزاکتوں سے حیران کن حدتک واقفیت رکھتے تھے۔شریعت، طریقت، حقیقت و معرفت کے باریک سے باریک  تر مسائل بلاتوقف و تردد چشم زدن میں حل فرمادیا کرتے تھے۔ المختصر، آپ کی ذات بابرکات مجمع محاسن اور مجمع کمالات تھی۔ آپ بلا مبالغہ۔ العلمآء ورثۃ الانبیاء کے مصداق تھے۔  اپنے وقت کے قطب الارشاد تھے۔ لاکھوں بگڑے ہوئے آپ کے وعظ و تلقین سے سُدھر گئے ۔ راہِ راست پر آگئے لاکھوں آپ کے باطنی علوم سے فیضیاب ہوئے۔ اور بہت سے آپ کی نظر کیمیا اثر سے ولایت کے اعلٰی مقامات پر فائز ہوگئے آپ خاندان عالیہ راشدیہ کے بانی ہیں۔ جس خاندان کے فیوض و برکات سے ہنوز لاکھوں طالبانِ حق مستفید و مستفیض ہورہے ہیں جس خاندان نے دین اسلام اور ملک و ملت کی سربلندی کی خاطر بیش بہا جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔
        یہی وہ عالی مرتبت خاندان ہے جو از اول تا آخر حق کی حمایت میں کمر بستہ اور باطل کے سامنے سینہ سپر رہا ہے۔ فقیر اللھ جل شانہ کا بیحد شکر گذار ہے کہ جس نے اس عظیم خاندان کے بانی حضرت قطب الارشاد پیر سائیں روزہ دھنی قد سنا اللھ باسرارہ العزیزۃ کی نورانی ملفوظات مبارکہ کی تلخیص و ترجمہ کرنے کی سعادت نصیب فرمائی اور اس مبارک لیکن انتہائی نازک خدمت سے عہدہ برآہونے کی توفیق مرحمت فرمائی۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: حضرت پيرسائين روزي ڌني رضي الله عنه جي ملفوظات جي تلخيص ۽ ترجمو (اردو) Description: Rating: 5 Reviewed By: سکندری
Scroll to Top