728x90 AdSpace

Latest News

Ads 468x60px

19 August, 2013

صاحبِ رُشد، سید محمد راشد روزہ دھنی﷥

صاحبِ رُشد، سید محمد راشد روزہ دھنی
علامہ عبد الحق ظفر چشتی       
    
  
رُشد و ہدایت کی نعمت کسبی نہیں وھبی ہے،    ذٰلِکَ فَضلُ اللھ ِیُؤتیہِ مَن یّشآءُ، اللہ تعالى جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے عطا کرتا ہے اس نعمت کے سب سے اونچے مقام پر انبیاء کرام  اور رسولان عظام ہیں ان پر عطاؤں کی بارش کا تخمینہ لگانا کسی انسان کے بس کا روگ نہیں جب سے نبوت کی خوبصورت عمارت کی سب سے آخری عظیم الشان اینٹ  خاتم الانبیاء والمرسلینﷺ کی صورت لگاکر عمارت مکمل کردی گئی اس کے بعد یہ عطاؤں کی بارش  بذریعہ وحی آنا بند ہوگئی، اب اس کی صورت سچے خواب الہام اور خصوصی نوازشوں کے انداز ہی میں  جاری ہے۔
صاحب قصر عارفاں حضرت شیخ احمد چشتی حیدرآبادی( ۱۲۸۱۷ھ) رقم طراز ہیں
"حضرات اولیا ءکرام کی منزلت اورقرب صدیقین، شہداء، عارف کامل، عابدوزاہد سے علیحدہ ہے ، اور اس کے مختلف درجات ہیں مگر یہ سارے درجات و مناصب حضرات انبیاء علیہم السلام کے بعد آتے ہیں، حقیقت میں یہ اولیاء اللھ کا گروہ، عالی شکوہ، اولیِ الامرو ارشاد ہے ان میں خُدا  و  رسول کی اطاعت، انقیاد و محبت اور اعتقاد، تمام  خُدائی سے بڑھ کر پائی  جاتی ہے"  (قصر عارفاں ۳۴ )
        ان کی پہچان ہردور میں یہی ایک رہی ہے کہ وہ مطیعین اور  متبعین رسول ہوتے ہیں جن میں یہ صفات موجود ہوں، وہ اس بات کے محتاج نہیں ہوتے کہ دنیا  انہیں ولی کہتی  ہے یا غوث، وہ قطب وقت معروف ہیں  یا ابدال، وہ مجدد  مائۃ  حاضرہ و سابقہ کہے جاتے ہیں یا نہیں۔ ان کی نگاہوں کا مرکزی نقطہ اللھ تعالی اور اس کے رسول معظم ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری ہوتی ہے، حُضور ختمی مرتبت کے انوار و تجلیات رشد ہدایت انہی کی وساطت سے جلوہ گر ہیں ، اہل بصیرت سے یہ بات مخفی نہیں کہ ھر  دور  میں یہ اصحاب تصرفات موجود رہے اور مختلف مناصب و مدارج پر فائز ہو کر اپنے  فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، کوئی قطب الاقطاب کوئی قطب  الارشاد قطب اکبر قطب عالم، قطب مداد، قطب جہانگیر اور اس قسم کے سینکڑوں مدارج  پرفائز یہ حضرات نور محمدی کے زیراثر عالم علوی اور عالم سفلی پر اثر انداز ہوئے ہیں اور دنیا کا کوئی خطہ ان کے تصرفات سے بے نیاز نہیں ہوتا۔
        تصویر کا دوسرا  رُخ یہ بھی ہے کہ کوئی چیز کوئی شخص بذات خود کوئی کمال حاصل نہیں کرسکتا، انگور کا کوئی دانہ خربوزے کا کوئی تخم اور آم کی کو‏ئی گٹھلی اس وقت تک نشو ونما نہیں پاتے جب تک کسی کسان کا ہاتھ ان کو کمال تک پہنچانے پر آمادہ نہ ہو۔
                جیسا کہ مولانا  رومی علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا
ہیچ چیزے خود بخود چیزے نہ شد،
ہیچ آہن خود  بخود  تیغے نہ شُد،
مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم،
تا  غلام شمس تبریزے  نہ شُد۔
یعنی کو ئی چیز خود بخود کسی درجۂکمال کو نہیں پہنچ سکتی جیسا کہ کوئی لوہا خود بخود  تلوار نہیں بن سکتا بذات خود مولوی رومی بھی اس وقت تک مولا‏‏ئے روم کے منصب پر فائز نہ ہو سکے جب تک حضرت شمس تبریزی کی نگاہ لطف سے لطف اندوز نہیں ہوئے۔
        انگور اور خربوزہ کے بیج میں نشوونما پانے کی صلاحیت موجود ہے لوہے میں تلوار بننے کی صفت موجود ہے انسان میں با خدا ہونے کی جبلت موجود ہے لیکن کوئی ماہر کسان، کوئی صنعت کار، کوئی مرد کامل ہو جو ان خوابیدہ صلاحیتوں کو جگانے کیلئے مبدئ مطلق ، خالق مخلوقات عالم جلّ شانہ عمّ نوالہ، بھیجتا ہے تو نظم کائنات میں رنگ بھر جاتا ہے، یہی وہ عظیم لوگ فرستادہ ومقدرہ من جانب اللھ ہوتے ہیں جو اپنے اپنے مراتب و مدارج کے اعتبارسے فرائض ادا کرتے ہیں۔
        اللھ رب العزۃ نے اس رشدوھدایت کی عطاؤں کو خطۂ پاک و ہند میں پھیلانے کیلئے سب سے پہلے علاقۂ سندھ کا انتخاب  فرمایا،اسی لئے اسے باب الاسلام کا نام دیا گیا ،قرون اولی کے صلحاء امت نے اس خطۂ کفروشرک کو پاک کرنے  کیلئے تشریف آوری کا سلسلہ شروع کیا اور وہ ہندوستان جہاں کروڑوں خود ساختہ معبود ان باطل کی عبادت ہوتی تھی  وہاں ان دیکھے معبود وحدہ لاشریک لہ معبود حی و قیوم معبود کا تعارف کرایا، فطرت انسان میں جبلت کے طور پر رکھی گئی صلاحیت معبود پرستی کا رُخ ہزار چوکھٹ سے موڑ کر ایک اللھ ایک خالق ایک مالک کی طرف پھیردیا، ان صلحاء امت میں نبی کل عالم ﷺ کی آل اولاد کبھی پیچھے نہیں رہی بلکہ پوری دنیا میں روز اول سے تا امروز کسی نہ کسی رنگ میں اپنے ارشادات و حسن   سیرت و کردار کی خوشبوؤں سے معطر کیا ، یہ لوگ اپنے  اندر  ایسی کوئی مقناطیسی قوت رکھتے تھے کہ انہوں نے کسی دور دراز  ویران علاقہ میں ڈیرہ لگایا تو دنیا پروانہ وار حاضر ہونے لگی اور اپنے دلوں کی اندھی نگریوں میں شمع توحید کی کرنوں سے اپنا کونہ کونہ منور کرنا شروع کردیا۔
        سید محمد راشد بن سید محمد بقا شاہ علیھما الرحمۃ بھی انہی مینار ہائے نور میں سے ایک نور کا مینار ہیں جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ یہ مناصب کسبی نہیں ہوتے بلکہ وھبی ہوتے ہیں ان کی پیدائش ۶ رمضان ۴۷۱ھ میں گوٹھ رحیم ڈنہ میں ہوئی
        میں اس جدید ترقیاتی دور میں بھی رمضان المبارک میں سحری ختم کرنے اور افطاری کرنے کا وقت معلوم کرنے کیلئے کلینڈروں کا محتاج ہوں چاند دیکھنے کیلئے رویت ہلال کمیٹیوں کا محتاج ہوں، مجھے یہ بتاؤ! وہ کون تھا جس نے اس بچے سید محمد راشد کو ماں کی گود میں یہ تعلیم دے دی کہ تو محمد عربی ﷺ کی ذات ستودہ کی نبوت و رسالت کا نمائندہ ہے اس کو کس نے بتایا کہ مسلمان پر رمضان المبارک میں روزہ رکھنا فرض ہیں وہ کونسا کیلنڈر تھا جو  ہر وقت اُن کے نہاں خانہ تصوریں لٹکا رہتا تھا جسے دیکھ کر وہ اوقات سحری و افطاری کا اہتمام کرتا ہو  اس بچے کو اپنے اسلاف میں سے  سیدنا الشیخ محی الدین محمد عبدالقادر جیلانی کی سنت پر عمل کرنا کسی نے سکھا دیا؟ وہ کون تھا جو اس بچے کو اس دور کے لاکھوں انسانوں اہل ا سلام اور اہل ایمان کو پکار پکار کر بتانے پر مجبور کرتا ہو کہ لوگو! دیکھو تم تو بالغ ہوکر بھی صاحب اختیار ہوکر بھی عقل و شعور کی پختگی کے باوجود {کتب علیکم الصیام }کا فرمان الہی بھول جاتے ہو دیکھو جن پر اللھ کا کرم ہوتا ہے جو نور ارشاد کریمانہ کے مستحق ٹھہرائے جاتے ہیں جو {ذلک فضل اللھ یؤتیہ من یشاء }کے قول فیصل کے مطابق من یشاء کی فہرست میں آجاتے ہیں، وہ غیر مکلف ہوکر بھی احکامات الہیہ اور فرامین حضرت محمد مصطفی ﷺ پر عمل کرکے دکھا دیتے ہیں۔
یہ رتبہ عظیم ہے جسے مل گیا سو مل گیا۔ اگر رزق حرام کا ایک لقمہ کھانے والے کی چالیس دن تک دُعا بھٹکتی  پھرتی ہے اور شرف قبولیت نہیں پاتی اور جس کی خوراک کا ایک ایک ذرہ بھی اتنا تقدس ماب ہو بتاؤ اس کی بزم میں  آنے والا شقی سعید نہ ہو جائے گا بدبخت کی بدبختی کی کالک دُھل نہ جائے گی، مجرم معاصی کا سزاوار تہذیب و اخلاق کا حسین نمونہ نہ بن جائے گا۔
        سید محمد بقا شاہ  صاحب نے اپنے چاروں صاحبزادوں میں سے اس  صاحبزادے کو سید محمد راشد کا نام دیا ان کے  نام رکھنے کے دن سے ہی ہر شخص ، ماں ، باپ بھائی ، عزیز، بزرگ سب انہیں محمد راشد نام سے پکارنے لگے گویا وہ اس شہزادے کو ذہنی و فکری طور پر آمادہ کررہے تھے کہ تمہارے نانا حضرت محمد رسول اللہﷺ ساری کائنات ارض و سماوی  کے لئے راشد بن کر تشریف لائے اور تیری تخلیق کے ابتدائی ایام ہی بتاتے ہیں کہ تو بھی اُسی حضرت محمد ﷺ کی صفت راشد کے نمائندے بن کر آئے ہو ،لہذا  سن شعور تک پہنچتے پہنچتے آپ میں اسم بامسمی بننے کی صلاحیتیں پروان چٹرھ چکی تھیں، آپ کو "ابویٰسین"کی کنیت سے بھی یاد کیا جاتا تھا  یعنی ا ے یٰسین وطٰہٰ کے تاج پہننے  والے کے ساتھ حسین نسبت رکھنے والے ان الله  والوں کو دنیا کی شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ محتاجی کي ”عطرآں است کہ خود ببوید نہ کہ عطا بگوید “ اس کے باوصف ہر دور کے مؤرخ نے جب بھی ان کی ذات کے حوالہ سے یا ان کے خاندان کے حوالہ سے قلم اٹھایا اس نے گواہی دی کہ "سادات لکیاری بسیار صیحح النسب اند" کہ یہ لکياری خاندان کے سید لوگ بناوٹی سید نہیں بلکہ واقعة صحيح النسب سید ہیں۔
         علوم الہیہ سے  فیض یاب شخص ،علم لدنی کے حامل لوگ ،سورج کے طلوع و غروب کے اوقات شیر خوارگی کی عمر  ہی ميں جاننے والے صاحب علم ہی ہوتے ہیں اگر کسی سےعلم نہ بھی حاصل کریں تو بھی صاحب علم ہی ہوتے ہیں لیکن چونکہ اُمی ہونا نبی کی شان ہے اس لئے ظاہرا  ًکسی سےکسب فیض کرنا بھی ان کی شان میں اضافہ کرتا ہے اس لئے آپ کے والد صاحب سے روحانی فیض و برکات کی بھیک اپنی جھولی بھرنے والے اُس وقت کے عظیم عالم دین حضرت حافظ زین الدین مہیسر اوراُس دور کے بڑے ہی جلیل القدروالشان عالم دین حضرت حافظ محمد اکرم گھمرو کے حضوردامن طلب علم و فضل پھیلایا اور اپنی جھولی علم کے موتیوں سے بھرلی کچھ ابتدائی کتب آپ نے حضرت مخدوم محمد طیب پنھور علیہ الرحمۃ کے ہاں بقاپور لاڑکانہ سے پڑھے۔
        پہچاننے والے تو پہچان جاتے ہیں کہ یہ جو شخص ہمارے پاس سے گذرا ہے کون ہے؟ نا واقف و اجنبی کو کیا خبر ہوتی ہے یہ تو پہچان رکھنے والا ہی بتاسکتا ہے ۔جن دنوں حضرت پیر سائیں سید محمد راشد بقا پور لاڑکانہ میں حضرت مخدوم محمد طیب پنھور کے ہاں زیرِتعلیم تھے تو  اُن دنوں مخدوم صاحب کے خلیفہ٫ اکبر حضرت مخدوم شہاب الدین منگریو رحمۃ اللہ علیہ ہر تیسرے چوتھے ہفتے اپنے پیرخانہ حاضر ہوتے اور حضرت سید محمد راشد رضی اللہ عنہ اور آپ کے بڑے بھائی سید عبدالرسول شاہ  رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے ہاں دعوت پر بلاتے۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ حضرت!کیا وجہ ہے آپ ہر تیسرے چوتھے ہفتے ان  دو صاحبزادگان کو اپنے ہاں دعوت دیتے ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا۔
        اللہ تعالٰی کے نور کی تجلیاں اس سیّد کی پیشانی میں چمک رہی ہیں اور قیامت تک روشن رہیں گی اور آپ کی اولاد ایک دوسرے سے اشرف واکمل ہوگی۔ (ملفوظات شریف)
       دنیا کے سب سے سچے انسان حضرت محمد رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا  کہ "لایشبعان" کہ دو انسانوں کا پیٹ بھرتا ہے نہ آنکھیں بلکہ ہر قدم کے بعد ان کی طلب اور اشتہاء اور بڑھتی ہے اور بڑھتی چلی جاتی ہے، طالب العلم  و طالب المال۔ یعنی اُن میں سے ایک علم وفضل کا بھوکا اور دوسرا سیم و زرکا بھوکا ، سیم و زر کے بھوکے کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھرے گی البتہ علم و فن کا طالب اپنی طلب میں سچا ہو تو تسکین ضرور پالیتا ہے حضرت سید محمد راشد روضہ دھنی پیر سائیں کی اسی طلب میں تسکین کی خاطر آپ کے والد صاحب سید محمد بقا شاہ شہیدنے آپ کو سندھ کےنامور عالمِ دین اور کامل و اکمل ولی حضرت علامہ حاجی فقیر اللہ علوی کی درسگاہ  واقع شکارپور سندھ میں داخل کرایا۔ حاجی صاحب محترم و مکرم کی درسگاہ اس وقت سندھ کی معروف ترین درسگاہ تھی یہ حاجی صاحب سندھ کے معروف مشہور فقیہ و محدث اور عاشقِ رسولﷺجناب حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹویکے نہ صرف تلامذہ میں سے ہیں بلکہ آپ کا شمار حضرت مخدوم کے خلفا٫ میں ہوتا تھا اس کے علاوہ حاجی صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل تھاکہ مخدوم صاحب کے استاد محترم حضرت شیخ عبدالقادر مکّی حنفی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ نے سندِ حدیث بھی حاصل کی ہوئی تھی۔
        استادِ محترم اپنے فن میں یکتا  ہو اور طالبِ علم بھی طلبِ صادق کا نمونہ ہو تو نہ جانے استادِ مکرم نے اپنے پیارے شاگرد کے دامن میں کیا کیا ہیرے جواہر، موتی اور لعل بھرے ہونگے اور شاگرد رشید نے کیا کیا کسبِ فیض کیا ہوگا لیکن چونکہ آخر صاحبزادے تھے سید( آلِ رسول) تھے اور لکیاری سیدوں کی مسند پر بیٹھنے والے تھے اور گھر والے پہچانتے بھی تھے اس لئے انہیں عام طلباء کی نسبت درسگاہ میں ایک خاص مقام، عزت و تکریم حاصل تھا جو استاد کی نظرِ شفقت بھی تھی اور  وہ اس کے مستحق بھی تھے لیکن ایک روز آپ کے والدِ ماجد حضرت سید محمد بقا شاہ صاحب استادِمحترم سے ملنے اور بچوں کی خبر لینے  تشریف لائے اور درسگاہ میں عزت و تکریم سے بیٹھے دیکھا تو نگاہِ دور رس نے محسوس کرلیا کہ پھول کانٹوں کی باڑ میں گھرا رہے، تو اس کے نکھرنے کا انداز کچھ اور ہی ہوتا ہے اس لئے ابھی شہزادگی کی ہوا سے بچا کر کسی ایسی جگہ داخل کیا جائے جہاں علم و فضل کی دستار چھونے تک کا سفر دکھوں ،تکلیفوں اور کانٹوں کا سفر ہوجو بچہ ان پُرخار راستوں سے نہ گزرے وہ کل اپنے ہاں آنے والے دُکھوں کے دُکھ کی کسک کیسے محسوس کرے گا۔ یہ سوچ کر سید محمد راشد روضہ دھنی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے برادرِ اصغر حضرت سید مرتضیٰ علی شاہ جو اس وقت آپ کے ساتھ اس درسگاہ کوٹری کبیر ضلع نوشہرو فیروز میں داخل کرادیا اس درسگاہ میں طلباء کو فقروقناعت کا سامنا رہتا تھا بلکہ کبھی کبھی فاقہ کشی کی نوبت بھی آجاتی ہوگی اس درسگاہ میں تعلیم حاصل کی چونکہ علم کا کوئی آخری کنارہ تو ہے نہیں اس لئے منتہی کتب اور دورہ٫ حدیث شریف کی تکمیل کے لئے استادالکل حضرت  علامہ محمد محدث آریجوی قدس سرہ کے مدرسے میں داخل کرایا گیا۔ یہی وہ درسگاہ تھی جس میں آپ کے ہم سبق حضرت شیخ العلماء والشیخ  علامہ سید محمد عاقل شاہ لکیاری، یوسف ِثانی گیسو دراز ہالانی، تحصیل کنڈیارو بھی تھے اس درسگاہ میں مقررہ نصاب کی تکمیل فرمائی اور دستارِ فضیلت و کرامت حاصل کی۔ اس درسگاہ کے معلم حضرت محمد محدث آریجوی کا سلسلہ اساتذہ حضرت علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی سے ملتا ہے۔ اس راستہ سے شرف تلمذوسند حدیث کا سلسلہ سیدنا امامِ اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان اور پھر آگے تاجدار ھل اتیٰ شہنشاہِ علماءِ جہاںﷺتک پہنچتا ہے۔
واقفِ سرِ خدا  ہر بندہ نیست،
آں عزیزانِ رانشانِ دیگر است۔
سند ارشاد پر بیٹھنے والا پیر اگر ظاہری علوم دینیہ سے واقف نہیں ہے تو اس کی ولایت  پر خاتمہ ملکِ ولایت غوث صمدانی، قطبِ ربانی،قندیلِ نورانی، حضرت الشیخ السیّدالحافظ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی کی مہر نہیں لگ سکتی اور ان کی مہر کے بغیر ولایت کے منصب پرفائز ہونا راہ زنوں، قذاقوں اور لٹیروں کا کام ہے۔ انہوں نے رہنماؤں کی قبائیں چھین کر اوڑھ لی ہوتی ہیں بتاؤ تو بھلا جس کی مہرسے ولایت کی سند ملتی ہے اس نے حصولِ علم کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا ۔ کیا اتنے علم و فضل کا شہنشاہ کسی جاہل مطلق  پیر کی ولایت پر مہر لگا سکتا ہے!
ایں خیال است محل است وجنوں
        جن دنوں آپ سید محمد راشد روضہ دھنی رحمۃ اللہ علیہ اپنے چھوٹے بھائی سید اصغر علی شاہ کے ساتھ کوٹری کبیر میں زیرِتعلیم تھے، انہی دنوں آپ کے والد ماجد سید محمد بقا  شاہ شہید نے اپنے بزرگ شیخ الشیوخ حضرت مخدوم محمد اسماعیل کےتربیت یافتہ وصحبت یافتہ حضرت مخدوم میاں عبدالرحمن کےایماء اور مشورے پر کوٹری کبیر جاکر دوران تدریس و تعلیم ہی دونوں بیٹوں کو بیعت فرمایا اور ذکراذکار کی تعلیم سے نوازا۔

        حضرت پیر سائیں سید محمد راشد روضہ دھنی کےملفوظات میں آج یہ محفوظ ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ اس مدرسے میں تعلیم و تدریس کے حصول کے دوران یعنی طالب علمی کے زمانہ میں ذکرِ جھَر سے مجھ پر ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی تھی کہ از سر تاپا، میرا موبہ مُوذاکربن جاتا تھا گویہ سینے اور دل میں سامان تو پہلے سےموجود تھا  ایندھن موجود تھا حضرت عشق کی آگ کی ایک تیلی ہی لگانے کی دیر تھی، کہ آتشِ عشق بھڑک اُٹھی۔
        عشق نگر کی ہوائیں درختوں کے سبز پتوں کو زرد کرنا جانتی ہیں پتے نوچنا، د یئے بجھانا، چھتیں اڑانا اور ریزے ریزے بکھیرنا جانتی ہیں خزاں رُت میں جب شدت آتی ہے تو پھر شدت سے چھا جاتی ہے شدت سے رُلاتی ہے غموں کے چشمے اُبلتے ہیں رنج والم کے پودے پھوٹتے ہیں اشکوں کی آبشاریں بہتی ہیں اس دھرتی میں صرف ایک ہی فصل ہاں درد کی فصل ہی اُگتی ہے فضائیں سسکیاں بھرنے پر مجبور کرتی ہیں، دئیے جلانے کیلئے خونِ جگر پیش کرنا پڑتا ہے، آگ روشن کرنے کے لئے ہڈیوں کا بالن پیش کرنا پڑتا ہے عشق کی منڈی کے مسافر پر اللہ تعالٰی رحم فرمائے یہ عشق نگر کے راہی عشقِ حقیقی و مجازی کی تفریق سے بے نیاز ہوتے ہیں وہ خود تو اپنی منزل سے آشنا ہوتے ہی ہیں ان کی خدمت میں طالب بن کر آنے والے کو بھی اس منزل سے آگاہ کردیتے ہیں منزل سے آشنا ئی سب سے بڑی نعمت ہے۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو،
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی۔
        آپ کی بیعت و خلافت کے سلسلہ میں آپ کے ملفوظات پر پیشِ نظر ہیں۔ راقم الحروف اس حوالہ سے حضرت علامہ سید زین العابدین شاہ راشدی (ایم  اے) کی تصنیفِ لطیف "آفتابِ ولایت"کا ایک درہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے آپ تحریر فرماتے ہیں۔
"حضرت پیر سید محمد راشد سلسلہ عالیہ قادریہ اور نقشبندیہ میں اپنے والد ماجد شیخ الاسلام والمسلمين سید العارفین،عارف باللھ، واصل باللھ، امام الاتقیاء حضرت پیر سید محمد بقا شاہ لکیاری شہید المعروف پیر سائیں پٹ دھنی قدس سرہ  {درگاہ شیخ طیب قبرستان}سے بیعت ہوئے اورسلوک کی منازل طئے کیں  اور خلیفہ مجاز اور جانشین کا اعزاز حاصل کیا حضرت پیر سائیں پٹ دہنی {پٹ سندھی میں زمین کو کہتے ہیں، حضرت تکلفات سے آزاد خاک نشین رہتے تھے۔ اس لئے پٹ دھنی کہلائے }،بادشاہ (۱۱۹۸ھ) سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں قطب ِدوراں، شیخ المشائخ، سندالکاملین، حضرت حافظ مخدوم محمد اسماعیل جونیجو قدس سرہ الا قدس (درگاہ پریان لو ءشریف خیرپور میرس) کے خلیفہ مجاز تھے (اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں مظہرِ غوث اعظم ،قطب الارشاد، سید الاولیاء، حضرت سید عبدالقادر شاہ جیلانی آخرین (خاص) درگاہ شریف پیرکوٹ (ضلع جھنگ پنجاب) سے دست بیعت اور اجل خلفاء میں سے تھے۔
        ایک بار حضرت سید عبدالقادر جیلانی آخرین نے اپنے مرید خاص خلیفہء اجل حضرت سید محمد بقا شاہ لکیاری سے بہت مسرور ہوکر فرمایا،
        بابا ہمارے جدامجد ،غوث الثقلین، محبوب میانی، قطب ربانی، حضور شیخ محی الدین ،سید عبدالقادر جیلانی حسنی و حُسینی (بغداد شریف)کے روح مبارک پر شب معراج حضور پُر نور سید عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے قدم شریف  رکھا تھا، اس قدم شریف کی برکت سے حضرت غوث الثقلین کا قدم مبارک تمام اولیاء کی گردن پر ہے آپ کا فرمان عالیشان ہے "قدمی ھذہ علٰی رقبِۃ کل ولی اللھ، یعنی میرا یہ  قدم (مبارک) تمام اولیاء اللھ کی گردن پر ہے۔
       اس کے مطابق ہمارے خاندان میں یہ طریقہ رائج ہے کہ جس خاص الخاص منظور نظر مرید پر مخصوص توجہ اور شفقت فرماتے ہیں تو جدی سنت کے مطابق اس کی گردن پر اپنا قدم رکھتے ہیں اور یہ قدم پشت بہ پشت ہم پہ  بھی آیا ہے، لیکن میں نے کسی مرید کے ساتھ یہ سنت و مطابقت پوری نہیں کی، آج دل چاہ رہا ہے کہ آپ کی گردن پر اپنا قدم رکھوں، حضرت سائیں محمد بقا  شاہ نے مرشد کے حُکم کی تعمیل میں فوری طور پر اپنی گردن جھکادی، اور حضرت نے اپنا قدم مبارک آپ کی گردن مبارک پر رکھ کر اپنی خاندانی سنت سے سرفراز اور مشرف فرمایا  اور اجازت عطا فرمائی (ملفوظات شریف حصہ ۴ صفحہ ۱۸۱) اس نعمت کی سعادت حضرت پیر سائیں روضی دھنی کو بھی حاصل ہوئی آپ خود بتاتے ہیں، ہم جب کوٹڑی کبیر کے مدرسہ میں زیر تعلیم تھے ایک روز والد معظم قدس سرہ   تشریف لائے اور مجھے خلوت میں بٹھا کر قدم شریف سے متعلق مذکورہ حقیقت بتاکر فرمایا ،بابا! تمام بیٹوں میں تم مجھے زیادہ عزیز ہو اس لئے میں اپنے مرشد مربی کی پیروی و متابعت میں اپنا قدم تمہاری گردن پر رکھتا ہوں، فرمانبردار بیٹے نے گردن جھکادی، اور حضرت نے قدم مبارک گردن مبارک پر رکھ کر وہی سنت ادا فرمائی ( ملفوظات شریف حصہ ۴ صفحہ ۱۵۶)
        امام العارفین سید محمد راشد شاہ قدس سرہ اپنے والد ماجد مرشد مربی سید محمد بقا  کی شہادت کے بعد بتاریخ ۱۰ محرم الحرام      ۱۱۹۸؁ کو سجادہ نشین بنے اس وقت  آپ کی عمر اٹھائیس برس تھی (مخزنِ فیضان صفحہ ۳۹۸)    (آفتاب ولایت صفحہ ۳۲ تا ۳۴)
        مسند ارشاد پر فائز ہونے والے کے لئے یہی بات سب سے اولٰی ہے کہ وہ دینِ نبیﷺ کا پیکر ہے کہ نہیں، اُسے سنت ِمصطفوی سے کتنا پیار ہے اس کی خلوت و جلوت میں اس کے ذھن  وفکر پر کس کی محبت کا اثر ہے وہ کون سے پیکر جمیل میں ڈھلا ہوا ہے عبادت میں، ریاضت میں ،قول میں ،فعل میں ،لین دین میں ،عوامی حلقوں میں اور خصوصی حلقوں میں اس کی ترجیحات کیا ہیں! کس کی گرد نعلین کو اپنی عزوجاہ خیال کرتا ہے کس کے دروازے کی چوکھٹ پر گردن جھکائے بغیر اُسے چین نہیں آتا کس کی خوشبو سے اس کے شام جان ایمان معطر و معنبر ہوتے ہیں، کس کی زندگی کا نمونہ اس کے لئے اسوہ حسنہ کا درجہ رکھتا ہے !اللھ تعالٰی سے محبت کا دعویٰ  اور اس کی راہ بتانے والے اُس کے محبوب کی پیروی سے عملی انکار یہ دونوں متضاد چیزیں ایک جگہ اکٹہا نہیں ہو سکتیں، اگر مسند ارشاد پر بیٹھنے والے کا قبلہ دل، حسن ازل کے شاہکارﷺ ہوں اُسے سنت بنوی سے اتنا پیار ہو کہ ایک ایک قدم بھی انہی کی راھنمائی میں اٹھائے ، اُس کی خلوت و جلوت میں محبوبِ محبوبانِ عالمﷺ کی محبت کی چھاپ ہو، اُس کا آئیڈیل عرش کے دولہا ہوں ﷺ، عبادت و ریاضت میں اِنّ صلٰوتی و نُسُکی و محیای و مماتی للھ رب العٰلمین  کی فکر چھائی ہوئی ہو، لین دین میں، قول و فعل میں، عوامی اور خصوصی حلقوں میں اپنوں اور بیگانوں میں ،امراء وغرباءمیں، عدل کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بھیگی آنکھ کا مالک نہ ہو بلکہ قدرت خداوندی کی عطاکردہ نعمت مسند انصاف کے حقوق پورے کرنے والا ہو، تو آنکھیں بند کرکے اُس عظمت کے مینار کے ہاتھ چوم لو ،جس کو راہ کی اور منزل کی خبر ہو اس کے ساتھ حسنِ ظن سے چل پڑنا راہ میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
        آئیے اس آئینے میں حضرت پیر سائیں روضہ دھنیکے پیکر جمیل کے خاکے کو اُترتے ہوئے دیکھتے ہیں اور مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں یقینا احساس ہوگا کہ اُسوہء حسنہءِرسول ِخدا  میں ڈھلا ہوا شخص کتنا حسین و جمیل ہے
سنت رسول سے محبت
       آپ اکثر فرمایا کرتے کہ سنت رسولﷺ کی اتباع اور پیروی میں باطنی فائدہ تو یہ ہوگا کہ محبوب ِحقیقی سے وصال کی نعمت حاصل ہوتی ہے اور چونکہ نبی کی ذات کا کوئی فعل بغیر حکمت و دانائی کے نہیں ہوتا اس لئے اس پر عمل کرنے سے ظاہری و باطنی امراض کا علاج بھی ہوتا رہتا ہے۔
        آپ نے پوری زندگی سنت رسول پر عمل کیا اور عمل کی تلقین کی. گمراہ پیروں فقیروں اور جاہل وبے عمل صوفیوں کی بھرپور مذمت فرماتے ،اور فرماتے شریعت و طریقت میں باہم کوئی تصادم نہیں بلکہ دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں آپ اکثر فرمایا کرتے یہ لوگ موحد نہیں ہیں ملحد ہیں۔
        آپ کے معمولات میں یہ بات شامل تھی کہ آپ وضو کرتے ہوئے اپنا چہرہ قبلہ کی طرف کرتے ، ایک دفعہ شدید سردی کے موسم میں سفر میں تھے ایک گاؤں پہنچے مولاڈنہ فقیر نے آپ کے وضو کے لئے پانی گرم کیا اور آگ کے قریب جگہ بنائی اور عرض کیا حضور وضو کے لئے جگہ تیار ہے تشریف لائیے اور وضو فرمالیجئے، لیکن جو جگہ تیار کی گئی تھی وہاں بیٹھ کر وضو کرتے ہوئے قبلہ رُخ ہونے کی سنت ادا نہیں ہوتی تھی،  اس لئے آپ نے اس جگہ وضو کرنے سے انکار کردیا اور باہر ٹھٹھرتی سردی میں بیٹھ کر وضو فرمایا۔
        آپ کے ایک فقیر میندہرو فقیر پلیجوکی روایت ہے کہ حضرت پیر سائیں روضہ دھنی کے ایک فقیر نے آپ کی خدمت میں عرض کی حضور نماز ادا نہیں ہوئی تو آپ نے ارشاد فرمایا یہ بھی محبوب سے محبت کی کمی ہے اگر محبوب کی محبت دل میں پیدا ہوجائے تو پھر اقوال و افعال میں مکمل تابعداری خود بخودہی نصیب ہو جاتی ہے اور نماز میں وہ کوتاہی جو غلبہء حال کی وجہ سے ہوا کرتی ہے اس نماز میں کیسے پیدا ہوسکے گی جس سے خود نماز کا وجود ہی باقی نہیں رہتا،  اس وقت جو تونے مجھ سے پوچھا تو یہ محبوب سے محبت میں کمی کی وجہ سے ہے نہ کہ غلبہء حال کی وجہ سے ۔کیونکہ غلبہء حال میں سوال پوچھنے کی حاجت ہی نہیں رہتی۔
        آپ فرمایا کرتے کہ داڑھی کی لمبائی سنت کے مطابق ایک مُشت بھر ہے، آپ خود بھی مٹھی بھر سے زیادہ  داڑھی بڑھنے نہ دیتے تھے آپ نے ایک دن ایک مرید کی داڑھی بڑھی ہوئی دیکھی ،تو خود اپنے ہاتھ سے مشت بھر سے زیادہ داڑھی کاٹ دی۔ سر کے بالوں کے متعلق فرمایا کرتے کہ بال رکھنا بھی سنت ہے ،منڈنا بھی سنت ہے ،آپ ﷺ نے حج کے موقعہ پر سر کو منڈاویا ہے، باقی عام حالات میں کبھی سر کو نہیں مُنڈایا، حضرت پیر سائیں روضہ دھنی نے ایک بار ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے شرعی اعمال ناقص ہیں یعنی وہ شریعتِ مطہرہ  پر پوری طرح عامل نہیں ہے اس کے عقیدہء توحید میں بھی خامی ہے اس کی توحید کی کمالیت میں بھی نقص واقع ہوگیا ہو گا، یعنی ایسے شخص کومعرفتِ ذات الہی میں کمال حاصل نہ ہوسکے گا۔
        سنتِ رسولﷺ کی نشانی ہے ناخن کاٹنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے کاٹے جائیں، آپ کی عمر مبارک جب ۶۳ سال ہوگئی، آپ علالت کی وجہ سے انتہائی کمزور ہو چکے تھے اور عالم استغراق میں رہتے تھے آپ کے ناخن بڑھے ہوئے تھے جمعرات کا دن تھا ، مرید نے آپ کے ناخن کاٹنے کے لئے سیدھے ہاتھ کی چھوٹی انگلی چھنگلی پکڑی  آپنے اس بیماری، علالت اور استغراق کی حالت میں بھی  ہاتھ کھینچ لیا اور شہادت کی انگلی آگے کردی تاکہ سنت رسولﷺ سے مخالفت نہ ہوجائے۔
اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است
        ہمارا تو یہ حال ہے کہ جس دنیا کو مردار کہا گیا ہے اور اُس کے طالب کُتے کہے گئے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ اُسے کُتوں کے لئے ہی چھوڑ دیا جاتا، لیکن ہماری اس کی طلب میں نیندیں حرام ہوچکی ہیں، دن رات وصبح و شام اٹھتے بیٹھتے ہر وقت یہی دُھن ہےکہ کہاں کہاں سے دولت ہاتھ آتی ہے جس کی جیب میں نظر آئے اُس سے جھپٹ لو خواہ  وہ بھائی ہو یا بہن ،شناسا ہو یا غیر شناسا، اپنا ہو یا بیگانہ، حلال ہو یا حرام، اس سے کوئی غرض نہیں، اُس کی جیب کی دولت، ناپائیدار دولت، بے وفا دولت ،ہر قیمت پر میری جیب میں ہونی چاہیے۔
        جس دولت کے حصول میں بھی بے چین، جس کے آنے پر بھی بے چینی، اور جس پر سب کچھ لٹ جائے اپنے بیگانے سب منہ موڑ جائیں، اس کی طلب میں بھوکے کُتوں کا مردار پر جھپٹنے کی صورت ۔ہر وقت بے صبرے،اور جس دنیا میں چین ہی چین ہے، قرار ہی قرار ہے ،جن کے قدموں میں راحت ہی راحت ہے، اس سے اتنے دور کہ اس کا راستہ ہی بھول گئے، لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس مردار دنیا کو کُتوں کے لئے ہی چھوڑ دیا اور اس مالک کے حضور نقدِدل کا نذرانہ پیش کردیا جس کے ذکر سے بھی دلوں کو چین و قرار ملتا ہے، وہ اس راز سے آگہی حاصل کرجاتے ہیں کہ جس کے ذکرکا یہ فیضان ہے اُس کے قرب کا کیا لطف ہوگا! ہم ان پُرسکون زندگی گذارنے والوں کی بات کررہے ہیں ۔حضرت پیرسائیں سید محمد راشد روضہ دھنی تو یوں لگتا تھا جیسے بالکل ہی تارک الدنیا ہو چکے تھے، طبع مبارک بالکل سادہ  اور اوڑہنا بچھونا سادہ، خوراک اور خوردونوش کی چاہت میں عدم تکلیف، ساگ پات سبزی جو مل گیا بطیب خاطر کھالیا، غریب پروری  دکھیوں بیماروں اور بے سہاروں پر نگاہ شفقت ،عجز وانکسار تو ایسے جیسے  اس کے معانی و مفاہیم سے صرف یہی لوگ آشنا ہیں۔ خلوص وللہیت کے پیکرِ جمیل، پوری امتِ مسلمہ کے درد میں گُھلے ہوئے اپنے نانا جان حضورﷺ کی صفت کمال حریص علیکم بالمومنین  کے مظہرِاتم اور اس چاہت و حرص میں شب و روز کے سفر ،محبتوں و الفتوں اور فیضان رب ذوالکرم والا حسان کی بارش دور دراز بستیوں گوٹھوں اور دیہات تک اور وہاں کے ہر گھر گلی کوچے بازار تک کے سفر میں ہمہ وقت مصروف صبرو استقلال، عبادت و ریاضات، سجدہ ریزی و وظائف شب خیزی و آہ سحر گاھی، کثرت دردو وسلام اور تلاوت کلام کے معمولات میں کوتاہی تو دور کی بات ہے ذراسی کمی کا بھی تصور نہ کیا جاسکتا تھا ،اکثر و بشتر بغیر جائے نماز کے سادہ مٹی پر سر ِنیاز جھکا دینا  اُن کو بھلا لگتا تھا، مٹی پر سر وہی رکھ سکتا ہے جو واقعۃً مٹ چکاہو، دانشور لوگوں کا کہنا ہے کہ میں اور میری مرگئی تے تر گئی۔ یہ ترجانے والوں کا تذکرہ ہے کہ بات ختم کرنے کو جی ہی نہیں کرتا۔
اُٹھایا قلم تو تیرے  نام نے،
میرے ذہن کو تازگی بخش دی۔
آپ یہ تصور بھی نہ کریں کہ ایسے لوگ ویسے ہوں جیسے ابلیس و جبریل کے مکالمہ میں حضرت اقبال نے لکھا ہے کہ
        میں کھٹکھٹاتا ہوں دلِ  یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط اللھ ھو اللھ ھو ۔
بلکہ آپ محمد رسولﷺکے غلاموں کی طرح اشداء علی الکفار رُحماءُ بینھم کی مکمل تفسیر تھے اپنوں میں اتنا مٹا ہوا کہ حیرت ہوتی ہو اور غیروں کے لئے اتنا سخت کہ تعجب کی جاء نہیں۔
        آپ کے دور میں میروں کی حکومت تھی، اس دور میں شیعیت کو بہت فروغ ملا صحابہ کرام پر سب وشتم عام ہونے لگا، خلفاء  راشدین کے خلاف ہرزہ سرائی معمول بن گیا، انکا ر آیات قران پاک کے لئے تاویلات کی جانے لگیں، حضرت غوث اعظم  کی عظمت سے منحرف ہونے لگے، ماتم اور ماتمی جلوس سیج و تابوت علم کا جلوس مساجد کے مقابلے میں امام بارگاہوں کو ترجیح دی جانے لگی، مجالس پڑھنے کے لئے ایران سے شیعہ مبلغین اور ذاکر آنے لگے، بلکہ درآمد ہونے لگے اور اُن کے بڑے معقول روزینے مقرر ہونے لگے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللھ عنہ کے نام سے نفرت کے لاوے اُبلنے لگے،  ایسے میں یہی ایک مرد درویش تھا جس نے علم وفضل اور تقویٰ و طہارت کے ساتھ شیعیت کے اس قصرِرفیع کی اینٹ سے اینٹ بجادی، شیعیت کا بُرج الٹ دیا، حکومتوں سے ٹکرا گئے، انہیں للکارا  اور عوام الناس کو اصل حقیقت سے آشنا کیا اور سنیت کے صیحح عقائد کا ڈنکے کی چوٹ سے دفاع کیا، کلہوڑوں کی حکومت کا دور بھی کچھ ایسا ہی تھا، آپ نے سندھ کے ان وڈیروں کے خلاف بھی علم جہاد اٹھایا اور اس طرح اٹھایا  کہ شاہی مکروفریب خاک میں مل گئے اور فقیر کی گدڑی فضاء سندھ کی بلندیوں پہ چھاگئی، پھر ایسا ہونے لگا کہ میر سہراب ٹالپر (حاکم ریاست خیرپور میرس)میر ٹھارو خان ٹالپر (حاکم ریاست میرپور خاص) اور میر فتح علی خاں ٹالپر (حاکم حیدرآباد ریاست) بھی حاضر ہونے لگے دعاؤں کی بھیک مانگنے لگے، آپ اُنہیں غریبوں مظلوموں اور کسانوں پر ظلم کرنے سے روکتے، ان پر ظالمانہ ٹیکس ختم کرنے پر اصرار کرتے، حاکموں کو اپنے تعیش بھری زندگی پر ٹوکتے، تعمیرو ترقی کے کاموں پر انگیخت کرتے، مسلک اہل سنت و جماعت کی تبلیغ و ترویج اور اشاعت پر آمادہ کرتے ان کے سامنے شان صحابہ بیان کی جاتی اُن کے شاندار کارمانوں کے تذکرے کئے جاتے، یوں سندھ کی فضا میں آپکا یہ انداز تجدیدی بنیادوں پر ہوا کہ لوگ مجدد وقت ، امام وقت جیسے القابات سے یاد کرنے لگے ، اہل دل اپنے دلوں کے نذرانے اس چوکھٹ پر آکر پیش کرتے۔

جو دل میں ہو زبان پر بھی وہی ہو،
یہی اصل نظام مصطفی ہے۔ﷺ
تلقین و ارشاد،
        چاند کی روپہلی کرنیں ہوں یا سورج کی تمتاتی دھوپ ان میں چمک کا باقی رہنا انہی لوگوں کے وجود سے ہے جو محمد عربی سراج منیرﷺ کے نور سے اپنی زندگی منور کر چکے ، سورج چمکتا، دمکتا جب اپنی آنکھ کھولتا ہے تو پورے زمانہ میں دن نکل آتا ہے لیکن اس کے با وصف اس سورج میں ایک نقص یہ ہے کہ روشنی پھلانے میں اتنا سخی ہونے کے باوجود کسی شخص کی اندھیری قبر میں دن نہیں چڑھا سکتا، اندھی قبروں میں بھی دن نکالنے والا صرف ایک ہے جسے اللھ تعالٰی نے سراج منیر کے لقب سے یاد فرمایاﷺ ؟ان کی مسند پر پیٹھنے والے صاحبان رشدوہدایت تلقین و ارشاد سے کبھی غافل نہیں رہتے۔
        حضرت پیر سائیں سید محمد راشد روضہ دھنی کے حضور حاضر ہونے والے جب بھی حاضر ہوتے تو آپ ان سے بیعت لیتے وقت ان امور پر عمل کی نہ صرف تلقین فرماتے ان پر عمل کی نگرانی بھی فرماتے اگرکوئی طالب ان فرائض سے کوتاہی کا شکار ہوتا تو نہ صرف سرزنش کرتے بلکہ بعض  اوقات موقع محل کےمطابق اُس سے مقاطع (بائی کاٹ) بھی فرمالیتے  اور اپنے فقراء کو بھی اس شخص سے اس وقت تک مقاطع  پر آمادہ رکھتے،   جب تک وہ تائب ہوکر واپس نہ لوٹ آتا، اپنے مریدوں کو جو تلقین کی جاتی وہ ساری نظام مصطفٰے کی تحریک کا نچوڑ ہے، نمازِ پنجگانہ کی پابندی پر اصرار، باجماعت پڑھنے کی فضیلت، ہر وقت باوضو رہنے،  ذکروفکر کی پابندی، ہر گناہ چھوٹا ہو یا بڑا  اُس سے بچنے کی سعیِ تمام ہر خاص وعام کو ایک خاص تاکید و تنبیہ کی جاتی کہ شرک کفر، بدعت غیبت، فتنہ وفساد، تہمت فریب، جھوٹ مکر، بداخلاقی وبدعملی، بے ادبی و دھوکابازی، حرام کاری وریاکاری ،بخل سود، جوا تکبروغرور، دل آزاری سے مکمل پرہیزہی نہیں بلکہ ان سے نفرت کا اظہار کیا جائے ۔
        ریش مبارک نہ حد سے بڑھے نہ مقدار سے چھوٹی ہو یعنی پوری بالشت بھرہو۔ فاسقوں کی وضع قطع سے دوری کا رجحان ذھن و قلب میں سما جائے، حقہ بیڑی ،افیم چرس، شراب بدنظری، تاش شطرنج موسیقی ڈھولک کھیل تماشے اور عورتوں کی بے پردگی ان تمام بُری عادات و خصائل سے بچنے کا حُکم ارشاد فرماتے۔اور آپ کی پوری جماعت ان  امرو نواہی پر عمل کی پابند ہوتی۔
تبلیغ ِدین بذریعہ تصنیف و تالیف۔
        ہمہ جہت تلقین و ارشاد کی ذمہ داریاں، دوردراز کے سفرتصنیف و تالیف میں زبردست رکاوٹ ہوتے ہیں لیکن نہ جانے کونسی قوت و طاقت تھی جو آپ کو ہر ہر پہلو پر کما حقہ نظر رکھنے اور ہرہر پہلو کی ضروریات کی تشنگی دور کرنے کے لئے وقت نکالنے پر آمادہ رکھتی، تصنیف و تالیف انتہائی اہم نازک، تحقیق طلب، اور جان سوز کام ہے۔ آج جب ہم آپ کی تحریروں پر غور کرتے ہیں ،تو حیرت ہوتی ہے، ہم انتہا ئی اختصار کے ساتھ ، آپ کی تصنیفات کی ایک جھلک دکھاتے ہیں، مطالعہ کیجئے اور جھوم جھوم جائیے اور ایک ایک صفحہ پر نقد ِدل کا نذرانہ پیش کیجئے۔
۱۔      مکتوبات شریف: خطوط نویسی یا خطوط کے جوابات لکھنا بہت اہم اور مشکل کام ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کے اعتبار سے ہر صاحبِ رُشد وہدایت نے اس طرف خصوصی توجہ فرمائی ،جو لوگ دور رہتے ہیں ،حاضری کا شرف حاصل نہیں کرسکتے وہ اپنے ذاتی معاملات سے لے کر روحانی مدارج کی بلندیوں تک کے مسائل لکھ کر بھجتے تھے۔ ان کے جوابات ایسے دیئے جائیں کہ ان کو تشنگی نہ رہے، یہ مکتوبات حضرت روضہ دھنی محفوظ ہو گئے۔ مرسل الیہ کے پتہ جات بھی محفوظ ہیں۔ اس اعتبار سے ان مکتوبات شریف کی روحانی حیثیت کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ آپ کے مکتوبات فارسی میں ہیں اب  ان کے ترجمے سندھی اور اردو میں ہوگئے ہیں، اور دریافت  ہیں۔
۲۔      ملفوظات شریف: ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو، وعظ و تذکیر کرنے والا اگر زبان اور حلق کے اوپر اوپر سے کرنے والا ہو تو اس کا اثر صرف کانوں تک ہوتا ہے ،اور اگر دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے حروف کا جامہ پہنے  خواہ وہ کتنے سادہ الفاظ کیوں نہ ہو ں وہ تیربن کر سیدھے دل پر جاکر پیوست ہوجاتے ہیں۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلنے والے ارشادات کی چاشنی کہتی ہے، کہ یہ زبانی کلامی مسئلہ نہیں ہے، یہ دل کی دنیا آباد کرنے والے الفاظ کسی پاکیزہ دل کے جھرنوں سے باہر نکلنے والے ہیں ۔
        آپ کے یہ ملفوظات آپ کےدو بہت ہی اہم خدمت گار پیکرِ حزم و احتیاط خلیفہ محمود نظامانی اور خلیفہ محمد حُسین مہیسر نے بڑے اہتمام، ادب و احترام ، لگن ومحبت ،اور بڑی احتیاط کےسا تھ انہی الفاظ میں فارسی میں محفوظ فرمانے کی سعیِ جمیل فرمائی ،اور اس کو "مجمع الفیوضات" کا نام دیا۔ جو دو ضخیم جلد میں قلمی نسخوں کی صورت مین آج بھی محفوظ ہیں۔
        ان ملفوظات شریف کو حضرت خواجہ علامہ مفتی محمد قاسم المشوری قدس سرہ نے پہلی بار تحقیق و تصحیح اور تقابلی جائزے کے ساتھ مستند نسخہ کی جلد اول کا سلیس سندھی ادبی  زبان  میں ترجمہ کیا، اور  ۱۹۶۲؁ میں حصوں کی صورت میں شائع فرمایا، ملفوظات کی دوسری جلد کا ترجمہ حضرت محترم مفتی درمحمد سکندری علیہ الرحمۃ نے فرمایا، وہ مختلف حصوں میں اشاعت کے زیور سے مزین ہو چکا ہے۔
۳۔     مخزنِ فیضان: دور حاضر کے صاحب طرز ادیب، نامور مصنف، حضرت مولانا ابوالحسان محمد رمضان علی قادری صاحب علیہ الرحمۃ  خطیب سنجھورو، ضلع سانگھڑ سندھ نے چھ حصوں کی تلخیص فرمائی، اور اس کو اردو زبان کا جامہ پہنایا۔
۴۔     صحبت نامہ: یہ بھی آپ ہی کے ملفوظات کا مجموعہ ہے اس کو "ملفوظاتِ صغیر"کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس کے تالیف کرنے والے آپ کے خلیفہء اجل حضرت میاں محمد حُسین مہیسر رحمۃ اللھ علیہ لاڑکانہ والے تھے ۔

        اس مختصر رسالہ میں خلیفہ صاحب نے ۸۳ ملفوظات و حکایات محفوظ کی تھیں، حضرت محترم مفتی عبدالرحیم سکندری شاہ چاکر والوں نے اس کا سندھی ترجمہ فرمایا،  اس کے ابتدائیہ میں حضرت پیرسائیں کے حالات و واقعات بھی تحریر فرمائے۔
۵۔      جمع الجوامع: (فارسی لغت) یہ ایک منفرد اور جامع ترین فارسی لغت ہے، اس کی تخریج کا اعزاز حاصل کرنے والے ،ڈاکٹر سید خضر نوشاہی، تعارفی کلمات میں لکھتے ہیں،
"حضرت پیر سائیں سید محمد راشد شاہ، مورث اعلٰی "خاندان راشدیہ"نے دینی و روحانی اور تبلیغی خدمات کے سلسلے میں جو کارنامے نمایاں انجام دیئے ہیں ،ان کا حصار کرنا بے حد مشکل اور ناممکن ہے ،ان کی رفعت علمی کا کچھ اندازہ ان کی اس نادرِ روزگار لغات سے لگایا جا سکتا ہے ،جو اپنی نوعیت کی منفرد لغت ہے یہ ان کا ایسا کارنامہ ہے ،جس کی مثال  کہیں اور نہیں مل سکی۔
        حضرت محترم سید حسام الدین مرحوم کے سندھی مقالات پر مبنی کتاب "گالھیون گوٹھ ونن جون" مطبوعہ   ۱۹۸۱؁کے صفحہ۶۰۲ پر اس لغت کا نام "جمع الجوامع"بتایا گیا ہے، جبکہ اصلی نسخے کی جلد اول ترقیمے میں کاتب نے اس کا نام "الجامع الجوامع"لکھا ہے۔
        آپ سائیں کے ملفوظات میں لکھا ہے کہ جب آپ جامع الجوامع کتاب پر کام کرتے تھے تو ساری ساری رات تحقیق فرماتے، اور اس کام کے لئے دس دس موم بتیاں جلا دی جاتی تھیں (مفوظات حصہ ۶)
۶۔      شرح اسماءاللہ الحسنی: اس شرح مبارک میں آپ نے ذات باری تعالٰی جل جلالہ عمّ نوالہ کے اسماء مباکہ کی تشریح کے ساتھ ساتھ ان اسماء گرامی کا بندے سے تعلق، تخلق و تعبد بیان کیا ہے، راہ سلوک پر چلنے والوں کے لئے یہ ایک نادر الوجود کتاب ہے، یہ کتاب عربی اور فارسی میں ہے ، راقم الحروف عبدالحق ظفر چشتی کو اس کا اردو ترجمہ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، البتہ ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوا۔{اور اسکا سندھی ترجمہ استاذ العلماء مفتی محمد اسماعیل میمن سکندری  صاحب{نوشھروفیروز}نے کیا، جو طباعت کے زیور سے مزین ہوکرمنظرِعام پر آچکاہے۔ ادارہ}
۷۔     محبوبیۃ المحمودیۃ: یہ کتاب بھی فارسی میں ہے اور اس میں راہِ طریقت کے بیس (۲۰) مقامات اور درجات بیان کئے گئے ہیں یہ کتاب بھی دراصل آپ پیرسائیں کے ملفوظات کا مجموعہ ہے، جو آپ کے خلیفہ حضرت محمود نظامانی نے ترتیب دیا، اور قاضی فتح الرسول نظامانی نے اس کا سندھی میں ترجمہ کیا ،جس کو محمودیہ اکیڈمی درگاہ محمودیہ کڑیو گھنور نے   ۱۹۹۴؁ میں شائع فرمایا۔
۸۔     کلام رشد: آپ کی شاعری کا محور نعت رسول مقبولﷺ اور عارفانہ کلام ہے ،یہ کلام سندھی زبان میں ہے ،مولٰنا عبداللطیف قادری (پرانہ سکھر) نے ترتیب دیا، اور خوبصورت انداز سے شائع فرمایا، آپ سندھی زبان میں مختلف تخلص استعما ل فرماتے رہے "سید" ، ""مرشد"  ،  "راشد"  ، اور فارسی میں "حُسین" تخلص استعمال فرمایا۔
        قدرت نے موت کے لئے جتنے راستے بھی مقرر کئے ہوئے ہیں ان میں کوئی ایک راستہ بھی بند نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں ایک راستہ ادھر بھی کھلتا ہوا نظر آرہا تھا، آپ کا وصال مبارک یکم شعبان المعظم   ۱۲۳۴؁ بروز جمعۃ المبارک ۶۳ سال کی عمر میں ہوا۔
        آپ کا جسدِ مبارک پرانی درگاہ گوٹھ رحیم ڈنہ کلہوڑو میں دفن کیا گیا۔ آپ کے وصال مبارک سے سولہ سال بعد آپ کے پوتے سید گوہر علی شاہ {اصغر  سائیں}نے جمادی الاول  ۱۲۵۰؁ بمطابق اکتوبر   ۱۸۳۴؁ سیلاب کے خطرہ کے پیش نظر آپ کا تابوت منتقل کرکے موجودہ درگاہ شریف راشدیہ پیران پاگارہ پیرجوگوٹھ ضلع خیرپور میرس سندھ میں دفن کروایا ،وصال کے ۱۶ سال بعد بھی آپ کا جسم مبارک  صحیح سلامت تھا، بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی ابھی غسل فرما کرآرام فرما رہےہے،چہرہ مبارک پورے  حسن وجمال کی تمکنت کے ساتھ چمک رہا تھا ،اور چہرے مبارک پر مسکراہٹیں پھیل رہی تھیں۔
        مزار مقدس پر   ۱۹۶۹؁ میں دوسری بار پیر صاحب پاگارہ  {ہفتم}قدس سرہ  کی زیر نگرانی ایک نئی عمارت تعمیر فرمائی، عالیشان دلکش، قرآنی آیاتِ مبارکہ سے مزین گنبذ تعمیر ہوا، گنبذ شریف اور مناروں پر خالص سونے کی چادر بچھائی گئی۔
                آپ کے خلیفہ حضرت محمودنظامانی قدس سرہ نے قطعہ تاریخ کہا  اور "نور ھادی مہدیء آخر زمن "سے سن وصال نکالا
سال وصلش پُرسید زجان
ساعتی درفکرماند بعد ازان
گفت در تاریخ  آں شافع بمن
نور ھادی ،مہدیء آخرزمن
۱۲۳۴
        پاک لوگوں کے تذکرے ذہن وفکر کو آسودگی بخشتے ہیں۔ ان کا ذکر عبادت شمار ہوتا ہے ،راقم الحروف نے حروف کی صورت میں چند پھول چُنے ہیں۔
                        قبولش کن زراہ دلنوازی
عبدالحق ظفرچشتی
ادارہ آغوش محمدﷺ مصظفٰے آباد لاہور
مدیرا علٰی ماہنامہ نور العرفان، لاہور
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

1 comments:

  1. Assalam o Alaikum wa Rahmatullah wa barakatoho,
    Muhtram Shaikh! sb I am student of islamic studies in Srgodha University.The topic of my thesis for Phd is" Uloom ul Quran wa Tafseer ul Quran pr ghair matboa urdu mwad" plez guide and send me the relavent material.I will pray that Allah Taala succeed you in this world and the world after,forgive all your mistakes.
    yours sincerely,
    Rafiuddin
    Basti dewan wali st. Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar
    03336750546 - 03016998303 Email address drfi@ymail.com

    ReplyDelete

Item Reviewed: صاحبِ رُشد، سید محمد راشد روزہ دھنی﷥ Description: Rating: 5 Reviewed By: سکندری
Scroll to Top